تحریر: امداد علی گھلو
صوبہ سندھ میں جن شخصیات نے قدمے ، درمے، سخنے، بہر صورت اپنی اپنی بساط کے مطابق خدمات انجام دی ہیں ان میں شہید قیصر حسین چغتائی کا نام بھی زندہ اور تابندہ رہے گا۔ تحریک، شہدا کی جماعت ہے بلکہ ہمارے بزرگان نے پاکستان میں ملت جعفریہ کی روشن شناخت اور حقوق کے لئے جو جدوجہد کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے بزرگان نے جانوں کے نذرانے اور قید وبند کی تکلیفیںذاتی مفادات کے لئے بر داشت نہیں کیں بلکہ انہوں نے ملت کےتحفظ، بقا اور انہیں حقوق دلانے کے لئے تمام تر مشکلات اورمصیبتیں جھیلیں۔ یہ تحریک کے بزرگان ہی تھےجو طوفانوں سے ٹکرا گئے، انھوں نے مصیبتوں کے پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا، ان پر بجلیاں گرائی گئیں تو وہ ان پر مسکرا دیے، بادل گرجے تو مسکراہٹوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو رُخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ حق پرستوں کے اس کارواں نے تاریک راہوں کو روشن و تابناک بنایا۔ یہ کارواں نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز کا مصداق ہے تو ان میں دہلوی،مفتی، حسینی اور نقوی جیسے میر کارواں بھی پائے جاتے ہیں۔
نابغہ روزگار، پُر اثر و متاثرکن شخصیت شہید قیصر حسین چغتائی کا شمار شیعہ علما کونسل سندھ کے فعال ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے اور شہید علامہ حسن ترابیؒ کی کابینہ میں صوبائی مشیر ره چکے ہیں۔ کارکنان سے ان کا ہمیشہ رابطہ رہتا، آپ سب کے مشیر اور اچھے کاموں میں شریک رہتے۔ شہید اپنی ذات میں ایک انجمن تھے؛ سب سے جدا اور سب کے رفیق؛ آپ پورے صوبے پر اپنی فکر صالح کی چھاپ ڈالتے۔ آپ نہ صرف تحریک کا قیمتی اثاثہ تھے بلکہ پاکستان کی اجتماعی تاریخ میں منفرد مقام رکھتے تھے ،ملت جعفریہ کی جدوجہد میں ان کا کردارکبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
اپنے اصولوں کے لئے بے لچک رویے کی بدولت وہ کارکنان کے لئے ایک آئیڈیل شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے اصولوں پر کوئی سودا نہ کرنے اور جسے حق سمجھا اس پر ملامتوں کی پروا کئے بغیر ڈٹ جانے کی وجہ سے نوجوان آپ سے بے حد محبت کرتے تھے اور کرتے رہیں گے۔
ضلع سانگڑھ میں آپ تنظیمی اور مذہبی امور میں فعال اور قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے با اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ ضلع بھر میں ترویج عزاداری کے سلسلے میں منفرد مقام رکھتے تھے اور سماجی حلقے میں بھی شہیدؒ کی اپنی ایک علیحدہ شناخت تھی ؛ شہیدؒ کے دو فرزند جے ایس او کے فعال کارکن ہیں؛شہید ؒنے سندھ کے شہر ٹنڈوآدم میں کام شروع کیا جہاں تشیع کی بہتری اور پیروان مکتب اہل بیت علیہم السلام کے لئے پشت پناہ ، مددگار اور حوصلہ دینے والی شخصیت کی شدید ضرورت تھی ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی کے بقول کہ شہید نےپچیس سالہ انتھک محنتوں سے ہزاروں افراد شیعہ کئے ؛ خاندانی اور پرانے شیعوں کو جرأت وحوصلہ دیا ، بہترین ، ہوشیار اور سمجھ دار نوجوان تربیت کئے ، علماء کرام اور قیادت و رہبریت سے لوگوں کو آشنا کیا اور اس راہ میں بہت سی مشکلات کاسامنا کیا مگر پوری تاب و توان کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے مکتب اہلبیت علیہم السلام کی ترویج میں دن رات ایک کردیئے۔
شہید ۱۵ فروری ۲۰۱۳ء دوپہر اپنے دفتر سے نماز ظہرین باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف نکلے تھے کہ ٹنڈو آدم بیرانی روڈ پر ریلوے پھاٹک کے قریب گھات لگائے مُسلّح دہشتگردوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے قیصرحسین چغتائی کو شہید کردیا۔
شہیدؒ کی خدمات کے پیش نظر علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی کہتے ہیں:
شہید قیصر حسین چغتائی کو شہید راہ ہدایت نام دیاجائے تو بجا ہے؛ شہید ،حیات جاوید پاگئے.