مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واحب بھی نہیں تھے
4 ستمبر 1988 ء میں بزرگ علمائے کرام اکابرین اور ‘ عمائدین قوم کی مشاورت اور اتفاق رائے کے بعد قومی و ملی پلیٹ فارم کے دستور و آئین کی روشنی میں جب میرکارواں کی ذمہ داری علامہ سید ساجد علی نقوی نے سنبھالی تو وہ ایسا وقت تھا جب علامہ سید محمد دہلوی مرحوم کے لگائے ہوئے پودے اور علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی پیرانہ سالی کی جدوجہد سے وجود میں آنے والے پلیٹ فارم نے علامہ عارف حسین الحسینی جیسی قیادت کی شہادت کا تازہ تازہ زخم سہا تھا۔ ایک طرف قوم سکتے کے علم میں تھی اور دوسری جانب ملک کی صورت حال بھی اس وقت کی گیارہ سالہ دور آمریت کی پالیسیوں کے سبب اپنے جائز آئینی‘ قانونی اور مذہبی حقوق کی جدوجہد اور شہری آزادیوں کی فکر میں مبتلا تھی۔
ایسے حالات میں قوم و ملت کی نومنتخب قیادت کو بے شمار چیلنجز درپیش تھے۔جن میں (الف) قائد شہید کی المناک شہادت کے بعد قوم و ملت کا مورال بلند کرنا اور انہیں آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا (ب) قوم کی وحدت اور اتحاد کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچانا اور بزرگ علماء اور اکابرین ملت سمیت عوام کے مابین مربوط اور ثر روابط کو فروغ دینا (ج) اتحاد بین المسلمین جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی کو ہر حال میں ممکن بنانا (د) قوم و ملت کے اندر سیاسی شعو ر بیدار کرکے شہید قائد کے ملکی سیاست بارے ویژن پر عمل درآمد کو یقینی بنانا(ہ) قوم و ملت کے آئینی‘ قانونی‘ مذہبی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا
چنانچہ قیادت کی اہم ترین ذمہ داری سنبھالتے ہی موجودہ قیادت نے ان خطوط پر کام کا آغاز کیا اور سب سے اولین مسئلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں عاشورا
کے رکے ہوئے جلوس عزا کی برآمدگی کا درپیش ہوا جس پر قومی قیادت نے واضح اور دوٹو ک الفاظ میں اعلان کیا کہ عزاداری سید الشہداء ؑ نہ صرف ہمارا آئینی و قانونی حق ہے بلکہ یہ ہماری شہری آزادیوں کا مسئلہ ہے جس پر کوئی قدغن برداشت نہیں کی جائے گی۔
دور حاضر میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ماضی میں قوم و ملت کی رہبری و رہنمائی کرنے والی شخصیات کو ان چیلنجز کا سامنا نہ تھا اور نہ ہی ان کے راستے میں اس قسم کے مصائب و مشکلات حائل رہے جن کا سامنا موجودہ قیادت کو کرنا پڑا۔ ان پر سب سے اولین اور سرفہرست دہشت گردی کا ہے جس کا نشانہ وطن عزیز پاکستان کے عوام بالعموم اور ملت جعفریہ پاکستان بالخصوص سب سے پہلے بنے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
دور آمریت میں قومی قیادت کی گرفتاری کے دوران قومی حقوق سے دستبرداری کے تقاضے ہوئے مگر قیادت نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا سہل جانا مگر قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔
قیادت کے نزدیک امت واحدہ کا تصور
موجودہ قیادت نے ان 27 سالوں میں عصری تقاضوں کے پیش نظر جس مسئلہ کو اپنا اولین ایجنڈا قرار دیا وہ ’’امت مسلمہ کی وحدت و اتحاد‘‘ ہے اور اسے قرآنی و نبوی فریضہ قرار دیتے ہوئے اس پر ہر حال میں عمل درآمد کیا یہی وجہ ہے کہ ملکی تاریخ میں نفاذ شریعت سفارشات‘ اعلامیہ وحدت‘ برصغیر کی تاریخ کے منفرد پلیٹ فارم ’’متحدہ مجلس عمل پاکستان‘‘ اور ملی یکجہتی کونسل جیسے فورمز کی تاسیس و تشکیل میں قیادت کا بنیادی اور اساسی رول ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام جید مسالک اور مکاتب فکر انہی پلیٹ فارمز کی بدولت باہم شیر و شکر ہیں اور ملک میں انارکی‘ فتنہ و فساد‘ فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلانے والے عناصر تنہا ہوچکے ہیں۔ قومی قیادت نے اپنے عمل کے ذریعہ سب پر واضح کیا کہ ملک میں شیعہ سنی مسئلے کا کوئی وجود نہیں بلکہ ملک میں جاری بدامنی‘ فتنہ و فساد اور دہشت گردی خالصتاً امن وامان کا مسئلہ ہے جس پر ریاستی اور انتظامی ادارے ضروری اقدامات کرکے قابوپاسکتے ہیں۔
عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ !
بعض عاقبت نااندیش افراد کی جانب سے منفی‘ بے بنیاد پروپیگنڈے اور بغض و عناد کے سبب نوجواں نسل کے اذہان کو پراگندہ کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں تاکہ انہیں شکوک و شبہات میں مبتلا کرکے ملی پلیٹ فارم اور قومی قیادت سے دور کرکے ملی وحدت کو کمزور کیا جاسکے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ قومی قیادت نے 27 سالوں میں کیا کیا؟ حالانکہ اس کا جواب تو اہل حل و عقد اور اہل خبرہ حضرات سے لینا چاہئے کہ سرزمین پاکستان کن حالات سے گذر رہی ہے اور ہماری ذمہ داری کیا ہے ، قیادت کی طرف سے ہونے والے اقدامات ان تقاضوں کے مطابق پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ پھر بھی ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ !
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی حضرت امام خمینی اورحضرت امام خامنہ ای کی طرف سے سونپی گئی نمائندگی کے فرائض انجام دئے جا رہے ہیں؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی عالمی اہلبیت اسمبلی میں حضرت امام خامنہ ای کی طرف سے سونپی گئی نمائندگی کے تحت عالمی اہلبیت اسمبلی کی شوریعالی میں فرائض انجام دئے جائے رہے ہیں؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی عالمی تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی میں حضرت امام خامنہ ای کی طرف سے سونپی گئی نمائندگی کے تحت عالمی تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کی شوریعالی میں فرائض انجام دئے جائے رہے ہیں؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی عالمی بیداری اسلامی اسمبلی میں حضرت امام خامنہ ای کی طرف سے سونپی گئی نمائندگی کے تحت عالمی بیداری اسلامی اسمبلی کی شوریعالی میں فرائض انجام دئے جائے رہے ہیں؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی شیعت کے خلاف داخلی اور خارجی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملکی سطح پرشیعت کا اصلی چہرہ متعارف کرانے میں کامیاب ہوئے ؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی ملک میں شیعت کے اصل چہرہ کی شناخت اور اسلامی مثبت کردارکی بنیاد پرجامعہ الازہرمصرکے سالانہ پروگرامز میں عالمی سطح پر شیعت کی ترجمانی کرتے ہوئے فقط آپ کی قیادت کو شرکت کا شرف حاصل ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی عالمی تقریب مذاہب اسلامی کی شوریعالی کے فیصلہ جات کی روشنی اورقائد شہید کی دیرینہ آرزو اتحاد بین المسلمین اپنی عروج کی منزلیں طے کرتے ہوئے امت مسلمہ کی قیادت کی جس کی بدولت ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل جیسے پلیٹ فارم وجود میں آئے؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی سیاسی میدان اور الیکشن میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ایوان زیریں اورایوان بالا سمیت سینٹ تک اپنی آواز پہچانے کے لئے نمائندگان پہنچائے؟ کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی ایک نگران حکومت میں بننے والا وزیرتعلیم قومی پلیٹ فارم کا تھا؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی گلگت بلتستان میں قومی پلیٹ فارم کی حکومت رہی ہے اور حالیہ انتخابات میں بھی دوسری بڑی جماعت کے طور پر کامیابی حاصل کی ؟ کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی سرحد حکومت میں قومی پلیٹ فارم شریک رہا ؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی شریعت بل، ناموس صحابہ بل اورحفصہ بل سمیت مختلف قانون سازاداروں کی سازشوں کو ناکام بنایا گیا؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی عدلیہ کو نشاندہی کراتے ہوئے شیعت کے خلاف سینکڑوں کتابوں اور لٹریچر پر پابندی لگوائی گئی؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی ڈیرہ اسماعیل خان، سیہون شریف اور پنڈی سمیت ملک بھر کے مختلف مقامات پرعزاداری جلوس بحال کرائے؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی سینکڑوں بے گناہ افراد کے کیسز میں کروڑں روپئے صرف کر کے انہیں آزاد کرایا گیا؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی سینکڑوں شہداء اور اسیروں کے اہل خانہ کی آبرومندانہ امداد کی جاتی ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی قومی پلیٹ فارم کے نام پر گلگت بلتستان میں کئی اسکول قائم ہیں؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی ایوان زیرین اور بالا میں مکتب کی ترجمانی کے لئے نمائندگان موجودرہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی تکفیری گروہ کو معاشرتی،مذہبی میدان سمیت سیاست میں رسوا کر کے دیوارسے لگایا گیا؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی قومی سیٹ پر دوبار لدہیانوی کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا گیا؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی اس دفعہ بھی لدہیانوی سمیت تکفیری گروہ کا ایک فرد بھی نہ ایوان زریں اورنہ ہی ایوان بالا میں پہنچ سکا؟
کیا آپ کو معلوم ہے اسی 27 سالہ قیادت میں ہی جب دہشت گرد گروہ کے سرغنہ کو 11 ماہ بعد چور دروازے سے پارلیمنٹ میں پہنچایا گیا تو اسی قیادت نے گریبان سے پکڑ کر اسے باہر نکالا ہے؟
اس کے علاوہ کیا یہ امر بھی کسی سے مخفی و پوشیدہ ہے کہ ملت کی قیادت موجودہ گھمبیر حالات کے باوجود ملک کے عوام سے مسلسل رابطہ میں رہتی ہے اور ملک کے طول و عرض میں موجود مومنین کے گھر جاکر ان کی خوشی و غم میں شریک رہتی ہے۔ملک کا چپہ چپہ اس امر کا گواہ ہے کہ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کوئی دن ایسا نہیں ہے جب وہ پاکستانی عوام کے درمیان موجود نہ ہوں‘ چاہے مجالس عزا ہوں‘ محافل عزاداری‘ کسی مومن کی نماز جنازہ ہو‘ رسم قل ‘ رسم چہلم یا برسی‘ دینی مدارس کے پروگرام ہوں یا علمائے کرام و اکابرین ملت کی ملاقاتیں‘ سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے ملی امور سے متعلق میٹنگز ہوں یا انتظامیہ یا حکومتی ذمہ داران سے رابطہ غرض ہر موقع پر قومی قیادت ہی قوم و ملت کی حقیقی نمائندگی کرتی دکھائی دیتی ہے اور قوم و ملت کی قیادت کا حقیقی معنوں میں حق ادا کررہی ہے
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے