ْ
قرآن کے ہوتے کیاجرات مَیں آپ کی آقانعت لکھوں ۔۔ہے اِک صورت قران پڑھوں اورچُن چُن کے آیات لکھوں
رحمت اللعالمین ؐکی حیات کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو قابلِ عمل اورقابلِ تقلید نہ ہو۔آپ ؐکی ذاتِ مبارکہ ایسی ہمہ جہت شخصیت ہے کہ تاریخِ عالَم مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تاریخِ عالَم کے نامور سپوتوں نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ، وہ کسی ایک نقطہ یا کسی ایک پہلو سے نمایاں ہوئے۔مگر عالمی تاریخ ایک ہستی محمد مصطفی ؐکی شخصیت وکردار سے اُنگشت بدنداں ہے کہ کوئی بھی آپ ؐکا ہمسر نہیں ۔آپؐ کی شخصیت کے جتنے پہلو ہیں ،اپنی مثال آپ ہیں ۔آپؐ گفتگو فرماتے ہیں تو آئینِ جہاں رقم ہوتا ہے،آپؐ خاموش رہتے ہیں تو حکمت ودانائی کے چشمے پھوٹتے ہیں ،آپؐ چلتے ہیں توفتح و نصرت کے جھنڈے گاڑتے جاتے ہیں ،آپ ؐرُکتے ہیں تو محبتوں کے پھُول کھِل اُٹھتے ہیں ،
صدیوں سے صف آراقبائل ،محمد بن عبداللہ کی دانائی سے شِیر وشکر ہوجاتے ہیں ۔راست بازی کا اِتنا بلند معیار کہ کافر— امین اورصادق کے لقب سے پکارتے ہیں ۔آپؐ جب حجتہ الوداع کا خطبہ فرماتے ہیں—- تو حقوقِ انسانی کا چارٹر مرتب ہوجاتاہے۔آپ ؐکا بچپن معصوم،آپؐ کی جوانی بے عیب،آپ ؐکی حیات بے داغ،آپؐ کا ہر پہلو حیاتِ مکتب،آپ ؐکی ہربات ایک اصول،آپؐ کا ہر لفظ ایک داستان، آپؐ کا ہر قدم ایک منزل،آپ ؐکا سفر سفرِجہاں، آپ ؐکا قیام مرادِحیات،آپؐ کا وجودفخرِکائنات،آپ ؐکی بشریت آبروئے اِنسانیت،آپؐ کی نبوت رہبرِ عالم،آپ ؐکا ہر قول حدیث،آپ ؐکا ہر عمل سُنت،آپؐ کی خلوت خودآگاہی،آپؐ کی جلوت خداآگاہی، آپ ؐکا وجود برہانِ الٰہی،آپ کی ہستی آئینہ ء ربانی۔سادگی میں وہ جمال کہ حسنِ جہاں ماند پڑجائے۔پیشانی اتنی روشن کہ راہب وکاہن ایک نظر میں بتادیں کہ یہی وہ ہستی ء پاک ہے کہ جس کےِ اشارے سے خامہ ء تقدیر رُک جائے۔عناصرِ فطرت پہ ایسی دسترس کہُ انگلی کے اشارے سے چاند دوٹکڑے ہو جائے۔فیضانِ نظرایسا کہ ساربان،حاکم بن جائیں اورصحرانشین ،فارس وروم کے فرمانرواٹھہریں۔
مکتب ایسا تخلیق کیا کہ کرامتِ مکتب سے —-جہاں بانوں سے لیکر قلم کار،اَولیاء سے لیکر حکماء،صوفیا سے لیکر مجاہدین کی وہ خوبصورت مالا تیارہوئی کہُ اس کا ہر موتی آبدار اورہر گوہر تابدارہوا۔وہ دانائے رازکہ حیات کے نہایت پیچیدہ اوردقیق مسائل کا آسان اورفطری حل پیش کیا۔غنی ایسے کہ کبھی اُن کے در سے کوئی خالی نہ گیا اورزمانہ گواہ ہے کہ درمصطفی ؐسے آج بھی سائل دامن بھر بھر کر لوٹ رہے ہیں ۔عفوو درگزر کا یہ عالَم کہ طائف کے کم ظرف اوربدنصیب لوگ،جب کنکر برسابرسا کر فخر عالم کو نڈھال کردیتے ہیں اورشدید زخمی حالت میں اُن لوگوں کی گوشمالی کیلئے— جب ربِ کائنات کی طرف سے آپ ؐسے دریافت کیا جاتا ہے تو آپ ؐفرماتے ہیں \” یہ مجھے نہیں پہچانتے\” اوررحمت اللعالمین ؐکے لبوں کی مسیحائی سے طائف کے مکینوں سے عذاب ٹل جاتا ہے۔اِنسانیت سے محبت اوراحترام کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کوڑاکرکٹ پھینکنے والی عورت کی عیادت کیلئے اُس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں ۔قناعت پسندی میں وہ مقام کہ اللہ اللہ— پیراہن پر پیوند لگے ہیں اورآقائے دوجہاں ؐخود اپنے ہاتھوں سے پیوند لگارہے ہیں ۔شاید آپؐ کی یہ خصلتِ حسنہ،اُس فرضِ منصبی کی بدولت تھی جو آپؐ زندگی کے دریدہ دامن پر پیوندکاری کیلئے منتخب کئے گئے ۔امانتداری کا اِتنا خیال کہ جانی دشمنوں کے نرغے سے بچ کر– ہجرت کرتے وقت بھی تمام امانتوں کی واپسی کا اہتمام کرتے ہیں اورمحمد مصطفیؐ کی جان کے درپے کفارِ مکہ بھی اپنی امانتیں آپ ؐامین کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھتے ہیں اور ربِ کائنات نے بھی اپنی عزیز ترین متاع اورمخلوق ،انسان کی رہبری کی امانت بھی آپ ؐامین کو سونپ دی ۔آپؐ کا اِستقلال ایسا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے تو سرک سکتے ہیں لیکن محبوبِ خداؐ اپنی حق بات سے ذرہ برابر بھی نہیں سرکتے۔یہاں تک کہ حضرت ابو طالب جیسی محبت کرنے والی اوررسالت کا ہر مقام پر ساتھ دینے اوردفاع کرنیوالی ذات کو بھی نہایت ادب سے بتادیا۔خداکی قسم ! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں — تومَیں پھر بھی حق بات کہنے سے باز نہیں آؤں گا۔شعبِ ابی طالب ؑ کے وہ کربناک اورپرازم مصائب وآلام کے تین سال بھی آپؐ کے پائے اِستقلال میں لغزش نہ لاسکے حتی ٰکہ دیمک کو عہد نامہ ء عدمِ وفا چاٹنا پڑا۔دُوراندیشی اورمعاملہ فہمی کی یہ حالت کہ صلح حدیبیہ کے وقت دشمن خوش ہو رہے ہیں اوراپنے بیتاب وبے قرار ہیں ۔مگر کچھ عرصے کے بعد اپنے عش عش کر اُٹھتے ہیں اوراغیار ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں ۔زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ اتنے شیریں اورپُرتاثیر کہ کفارِ مکہِ اس خدشہ کے پیشِ نظر آپؐ کی بات نہیں سنتے کہ مباداشیریں گفتار کے زیرِ اثراِسلام قبول نہ کر بیٹھیں ۔
سیرت نبوی ،پیغامِ ربانی کی عملی تفسیر تھی۔اورجو قرانی آیات بذریعہ وحی آپؐ پر نازل ہوئیں،آپؐ نے اُن پر مِن وعن عمل کرکے دکھایا ۔اِس طرح حیاتِ طیبہ مسلمانانِ عالَم کیلئے ایک عملی نمونہ قرار پایا اورجوبات یا معاملہ قران کی آیات سے عیاں نہ ہو—- وہ سیرتِ محمدؐ سے باوضاحت معلوم کیا جاسکتاہے۔یہ اُس ربِ کائنات کی دانائی اورمحمد مصطفی ؐکی سچائی کا بین ثبوت ہے کہ آنحضورؐکے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کی زندگی بھی قابلِِ رشک اوربے مثال ہے۔تاریخِ عالَم انگشتِ بدنداں ہے کہ بچپن سے لے کے وصال تک— مصائب وآلام کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ جن کے تذکرے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر آپؐ کے پائے استحکام میں نہ کوئی لغزش آئی اورنہ اصول وضوابط سے ہٹ کر کوئی قدم اُٹھایا۔23سال کے اِس مختصر عرصے میں جزیرہ نمائے عرب کے 9لاکھ 30ہزارمربع میل کے رقبہ پر پھیلے ہوئے،273 قبائل کی 373 خودمختار مقامی حکومتوں کو سرنِگوں کرکے یکجا کیا اورواحد فلاحی مملکت قائم کی۔آپؐ نے رُشدوہدایت کے وہ سرچشمے جاری کئے جو روکے نہ رکے،اورنورِہدایت — جہانِ رنگ وبُو کے کونے کونے میں پھیل گیا۔تاریخِ جہاں کو ایسا سپوت نصیب ہوا کہ بڑے بڑے حکماء فضلااِس عظیم ہستی کی عظمت اورپاکیزگی کے بارے میں رَطب اللسان ہوئے اورآج تک بڑے بڑے عالم آپ کی شان میں قلم اُٹھا کر اپنی بہتری اوربخشش کا سامان کررہے ہیں ۔فلکِ پیر نے ایسی لاجواب شخصیت نہیں دیکھی ہوگی جس کے اوصافِ حمیدہ —بے نظیر،بے مثال اوربے شمار ہوں۔جو دوستوں اوردشمنوں کیلئے رحمت اورابرِ کرم ہو۔جو عفوودرگزر کا قومی پیکر ہو۔دُنیا کے شہنشاہ آپؐ کے قدموں کی مٹی سرپر ڈالنا فخر سمجھتے ہیں ۔اَولیاء اورپارسا آج بھی اُس خاک کو چومتے ہیں اورآنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں جس پر آج سے 1500سال پہلے آپؐ کے قدم مبارک پڑے تھے۔اِسی لئے علامہ اقبال سے نہ رہاگیا اوروہ وجد میں کہہ بیٹھے کہ
خیرہ نہ کرسکامجھے جلوہ ء دانشِ فرنگ۔۔۔۔سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
یہ فیضِ ابد ہے جو جاری و ساری ہے۔یہ نورِعالَم ہے جو چارسُو پھیلا نظر آتاہے۔یہ رحمت وکرم اورمحبت واُلفت کی خوشبوہے جو جابجااورکوُبہ کوُ ہے۔
ضرورت اِس اُمر کی ہے اِس دہشت گردی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں افکارِمحمدیؐ کی شمع روشن کی جائے ۔سیر ت مصطفی ؐسے روشنی اور ہدایت حاصل کی جائے اوراُسوہ ء حسنہ پر عمل کرکے انفرادی زندگی کو بھی سنواراجائے اورمعاشرتی وقومی سطح پر بھی آپ ؐکے طرز عمل کو نمونہ بنایاجائے۔