کورونا وائرس اور زائرین
تسلسل سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب ایران سے براستہ تفتان آنے والے زائرین کو قرار دیا جائے یہ دانستہ اور کھلی زیادتی بلکہ کچھ اور بھی ہے۔
ماجرا یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26فروری2020ءکو سامنے آیا،عین انہی ایام میں زائرین ایران سے پاکستان داخل ہونا شروع ہوئے۔ وزارت صحت کے ذمہ داروں نے تفتان کے دورے کیے اور کسی حکمت عملی کے بغیر اقدامات کے اعلانات کیے۔ ان اعلانات کا جو حشر ہوا اور جس انداز میں زائرین کو وہاں رکھا گیا اور اس کی وجہ سے زائرین کے اندر وائرس پھیلا یہ ایک الگ داستان ہے جس کا تذکرہ کئی بار کیا جاچکا ہے اور ان حقائق کو بلوچستان حکومت نے کھول کر بیان کردیا ہے۔
جب زائرین فروری کے آخرمیں ایران کے ایک گیٹ سے نکل کر پاکستان میں داخل ہوئے تو وزارت صحت کی تحویلمیں آگئے لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی حوالے سے اس غلط فہمی کو پختہ کیا جاتا رہا کہ کورونا وائرس زائرین کی وجہ سے پھیلاحتیٰ کہ نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں کے متاثر ہونے کو ملتان قرنطینہ میں آئے زائرین کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔جبکہ ان ڈاکٹروں کا ملتان قرنطینہ سے کوئی لینا دینا نہیں اور ثابت ہوچکا ہے کہ وہ نشتر ہسپتال کے اندرموجود مریض سے متاثر ہوئے۔
حیرت ہے کہ اپنے آپ کو دانشور کہلانے والے بھی یہی راگ الاپنے لگے اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنے لگے کہ خستہ حال اور تباہ حال زائرین تو اب تک وفاقی پھر صوبائی وزارت صحت والوں کے کنٹرول اور قید میں چلتے رہے ہیںباہر نکلے ہی نہیں لہٰذاکورونا زائرین کی وجہ سے ہرگز نہیں پھیل سکتا۔
منجانب: شیعہ علماءکونسل پاکستان