تازه خبریں

یوم پاکستان کی مناسبت سے دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان قم المقدسہ کے زیر اہتمام پر جوش محفل کا انعقاد

جعفریہ پریس – یوم پاکستان کی مناسبت سے دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان قم المقدسہ شعبہ خدمت زائرین کے زیر اہتمام ایک محفل کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں طلاب کرام اورزائرین سمیت دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان قم المقدسہ کے عہدیداروں نے بھر پور شرکت کی ۔ جعفریہ پریس کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق قرآن پاک کی تلاوت سے اس محفل کا با قاعدہ آغاز کیا گیا بعد میں برادر ابوذر جعفری نے 23  مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے ترانہ پیش کیا اور ایام فاطمیہ کی مناسبت سے سوز خوانی کی ۔  بعد ازآں شعبہ خدمت زائرین کے انچارج جناب سید ناصر عباس نقوی انقلابی نے اپنی مختصر گفتگو میں دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان بالاخص شعبہ زائرین کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ علمائے کرام کے زیر سایہ حضرت بی بی فاطمہ معصومہ (علیہا سلام) کے زائرین محترم کی خدمت کرنے کا شرف مجھے حاصل ہوا ۔ اس موقع پر حجت الاسلام و المسلمین علامہ غضنفر علی حیدری نے اپنے خطاب میں یوم پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان بننے سے پہلے کی تاریخ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ملت تشیع نے پاکستان بنانے میں مکمل تعاون کیا اور اپنا پورا سرمایہ خرچ کیا یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں تو جب شیعہ ریاستوں نے پاکستان سے الحاق ہونے کا اعلان کیا جیسے گلگت بلتستان کا علاقہ ہے تو کسی قسم کی شرط نہیں رکھی مگر کچھ اہلسنت کی ریاستوں نے الحاق کیلئے مختلف شرائط رکہیں یہاں تک کہ اعلان کیا کہ ہم آئین پاکستان کو قبول نہیں کرتے اور اپنے علاقوں میں اپنی من پسن کی شریعت اور قانون نافذ کریں گے ۔
علامہ غضنفر علی حیدری نے ملت تشیع کے استحکام پاکستان میں کردار پر روشنی ڈلتے ہوئے کہا کہ اسی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے جنازہ میں قومی قیادت حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں اس عظیم قربانی کو استحکام پاکستان کیلئے پیش کرتا ہوں لیکن افسوس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ بعض لوگ اس عظیم شہید کو متنازع بنا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر غیر قابل قبول سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ شہید کے حوالے سے شہید کی دوستوں کی لسٹیں بنا کر پیش کر رہے ہیں، ان لوگوں کو اس فہرست میں شامل کرتے ہیں جنہوں نے شہید کی زندگی میں شہید کو دیکھا ہی نہیں تھا ! اور شہید کے حقیقی دوستان کو آج کل شہید کے دشمنوں کی فہرستوں میں متعارف کروایا جا رہا ہے جو سراسر حق کشی اور نا انصافی ہے ۔
انہوں نے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ قائد شہید کی شہادت کے بعد انتظامیہ کی جانب سے شہید کا کیس سرد مہری کا شکار ہوا تو کیونکہ میں اس وقت آئی ایس او ملتان ڈویژن کا صدر تھا تو ہم نے میٹنگ بلا کر یہ فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے صدر مملکت کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ جب صدر مملکت اسحاق خان کی گاڑی وہاں سے گزرے گی تو ہم گاڑی کو روک کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے ۔ہم نےاسی طرح ہی کیا اور جب صدر کی گاڑی چوک پر پہنچی تو مختلف جوانوں نے تمام سیکیورٹی حفاظتی تدابیر کو توڑتے ہوئے صدر کی گاڑی کو گہیرے میں لے لیا اور ہمارے ایک عزیز نے صدر کی گاڑی کو روکنے کیلئے اپنی جان خطرہ میں ڈال کرصدر کی گاڑی پر چڑھ گیا ۔ گاڑی میں اسحاق خان سمیت فضل حق بھی موجود تھا ۔ ہمارے جوانوں نے پلا کارڈ اور بینرز کو صدر کی گاڑی کے شیشوں سے چسباں کردیئے جس میں لکھا تھا کہ فضل حق کی سرپرستی میں ہی ہمارے مظلوم قائد کو نشانہ بنایا گیا ۔اندرونی اور بیرونی میڈیا نے اس واقعے کی مکمل کوریج دی ۔
یہ تاریخ کا ایک حصہ ہے ایک حقیقت ہے مگر آج ان جوانوں کا تذکرہ تمام محافل سے کیوں ہٹا دیا گیا ؟! آج کیوں اس جوان کا تذکرہ جس نے گاڑی پر چڑھ کر اس کو روکا کہیں نہیں ہو رہا ؟!  تاریخ کو کیوں مسخ کیا جارہا ہے ؟ تحریف شدہ تاریخ قوم اور ملت کو دی جا رہی ہے ! شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے بعد تمام ویڈیوز اور تصاویر سے قومی قیادت علامہ سید ساجد علی نقوی ، علامہ افتخار نقوی اور علامہ تقی نقوی کو کیوں حذف کر دیا اور کہا گیا کہ شہید کا علماء سے کوئی ربط نہیں تھا ؟ کیوں آنے والی نئی نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے ؟حال آنکہ سب کو معلوم ہے کہ شہید قومی قیادت کے سایہ میں علمائے کی ہدایات پر ہی گامزن تھے-