جعفریہ پریس – حکومت بلا تاخیر نیشنل سیکیورٹی پالیسی وضع کرے اور عوم کے جان و مال کے تحفظ کے لیے بھی قابلِ عمل پالیسی وضع کرے۔ اور ہم ہر اس اقدام کی حمایت کرے گی جس سے ملک میں امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے ان خیالات کا اظہار قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے ا مام بارگاہ قصرِ شبیر راولپنڈی میں شہید ہونے والے اٹک پولیس کے کانسٹیبل فہیم عباس کی زیارت توکل شاہ پر ادا کی جانے والی نمازِ جنازہ کے بعد سید تقی نقوی کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا. اس موقع پرضلعی صدر شیعہ علما کونسل پاکستان گل حیدر نقوی، سید مختار حسین شاہ ، مخدوم الحسن،چیئرمین اٹک پریس کلب رجسٹرڈ ندیم رضا خان ،سینیئر صحافی کالم نگار عمران حسین کاظمی کے علاوہ جعفریہ یوتھ کے اراکین بھی موجود تھے.علامہ سید ساجد نقوی نے ا مام بارگاہ قصرِ شبیر راولپنڈی کے باہر ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاران کی شہادت پر دلی افسوس کااظہار کیا اور اس ناخوشگوار واقعے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجرمان کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر عبرت ناک سزا دی جائے موجودہ حکومت کو چاہیے کہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد کروائے تا کہ شرپسند عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے. حکومتِ وقت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قابلِ عمل قانون سازی کرے تو ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے. انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد کو مؤخر کیا اور موجودہ حکومت بھی اسی پر عمل کر رہی ہے. یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ سزائے موت کو مؤخر کرنے سے دہشت گردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو گا. حکومتِ وقت نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کرے.ہماری جماعت اس کی مکمل حمایت کرے گی. دہشت گردی کے جو بھی محرکات ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان سے عوام کو آگاہ کرے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے. دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں تا کہ ان کا قلع قمع کیا جا سکے. بدقسمتی سے موجودہ قوانین کے تحت بھی سزائیں نہیں دی جا رہی ہیں کیوں کہ کبھی مقدمہ کمزور بنایا جاتا ہے کبھی گواہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا اور وہ دباؤ میں آ کر اپنے بیان سے منحرف ہو جاتے ہیں. ساجد نقوی نے کہا کہ تمام قوم متحد ہے شیعہ سنی کا کوئی تفرقہ نہیں ہے. صرف چند تکفیری عناصر مفاد پرستی کی آڑ میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہے ہیں. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت طالبان سے جن شرائط پہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے اس کے بارے میں مکمل وضاحت پیش کرے تو اس کے بعد ہی حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ متحدہ علما کونسل کے علاوہ سابقہ متحدہ مجلسِ عمل کو بھی فعال بنایا جا رہا ہے اور سانحہ راولپنڈی کے بعد اس کے اجلاس بلا کر اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کی جا چکی ہے. انہوں نے کہا کہ کہ ملی یکجہتی کونسل کے بھی دو اجلاس ہو چکے ہیں اور تمام علمائے کرام نے ایک دوسرے کے عقائد کے احترام کا متفقہ فیصلہ کیا ہے. انہوں نے کہا کہ آرمی پولیس اور معصوم لوگوں کو شہید کرنے والوں کو روکنا حکومتِ وقت کا کام ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ہمارے ملک کی اندرونی قوتیں ہی ملوث ہیں بیرونی ہاتھ کی بات بعد کی ہے.