بیت المقدس پر قبضہ صرف عالم ا سلام کا نہیں بلکہ عالمی انسانی المیہ ہے ، علامہ ساجد نقوی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جارح اسرائیل کو غیر قانونی اور غاصب ریاست قرار دیا تھا، قائد ملت جعفریہ
قبلہ اول پر اسرائیلی ناجائز قبضہ انتہائی قابل مذمت ہے اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اتحاد امت ہی مسلمانوں کی مشکلات کا حل ہے
راولپنڈی /اسلام آباد 20مئی 2020ء( جعفریہ پریس پاکستان )قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی یوم القدس کے موقع پر اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ قبلہ اول کی آزادی صرف عالم اسلام‘ کسی خاص خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت سے مربوط مسئلہ ہے لیکن ذمہ داری کے لحاظ سے اس کا تعلق براہ راست امت مسلمہ سے بنتا ہے اس لئے دنیا بھر کی مسلم اقوام کے لئے چیلنج کی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی جارح اسرائیل کو غیر قانونی اور غاصب ریاست قرار دیا تھا۔ دنیا کا ہر وہ شخص جو خدا تعالی پر یقین رکھتا ہے اور بیت المقدس کو قبلہ اول جانتا ہے اس کا قرآنی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ قبلہ اول کو صہیونی پنجوں سے آزاد کرانے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرے۔ علامہ ساجد نقوی کہتے ہیں کہ قبلہ اول پر اسرائیلی ناجائز قبضہ انتہائی قابل مذمت ہے اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اتحاد امت ہی مسلمانوں کی مشکلات کا حل ہے۔مسلم ممالک مشترکہ مسائل پر ایک موقف اختیار کریں تو اسلام کی عظمت و سربلندی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یہ بات ایک روشن حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک غاصب حکومت اور فلسطینیوں کو حق ہے کہ وہ اپنی ریاست قائم کریں۔ پاکستان کی اسرائیل بارے پالیسی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق ہونی چاہیے کہ پاکستان اور اسرائیل میں کوئی چیز مشترک نہیں اور نہ ہی ہوسکتی ہے اور برصغیر کے لوگ فلسطینیوں کی منشاءکے خلاف کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کے مسلسل محاصرے‘ شہری علاقوں پر متواتر بمباری‘ نہتے عوام پر گولیاں برسانا حتی کہ میزائلوں کا نشانہ بنانا‘ لوگوں کو ٹینکوں تلے کچلنا‘ خواتین کی عصمت دری‘ بچوں اور بوڑھوں کو وحشیانہ انداز میں ذبح کرنا اور مسلمان بستیوں کو بموں اور ٹینکوں کے ساتھ مسمار کرنا اور اس طرح کے دیگر جرائم اسرائیل کے معمولات میں شامل ہیں۔ چنانچہ ہر وقت اور ہر سمت سے اسرائیلی جارحیت و درندگی کے نتیجے میں تباہی و بربادی کے دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ انسانیت کو شرمادینے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے اور نئی بستیوں کی تعمیر کرکے مظلوم و محکوم فلسطینی عوام کے لئے اپنی ہی سرزمین تنگ کی جارہی ہے‘ گذشتہ دنوں گولان کی پہاڑیوں کو اپنا حصہ بنانا بھی اس کے عزائم کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح فلسطینی عوام کی مرضی و منشا اور خواہش کے برعکس بیرونی مداخلت کے ذریعہ خود سے ہے ۔اسرائیل کے دارالحکومت کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا گیا جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں اسے سفارتی دہشت گردی کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہآج کل نام نہاد ڈیل آف دا سنچری فلسطینیوں پرلاگوکرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ اسے فلسطینیوں، مشرق وسطیٰ، اوآئی اسی ،اقوام متحدہ اورباقی تمام دنیانے بالکل مسترد کردیاہے۔اسرائیل کے انسانیت کوشرمادینے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ نئی بستیوں کی تعمیر، گولان کی پہاڑیوں کواپناحصہ بنانا، اسرائیلی دارالحکومت کوتل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں اسے سفارتی دہشت گردی کہا جاسکتا ہے۔انہوںنے کہا کہ کئی دہائیوں پر محیط انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ عالمی سطح پر نئے انداز اور نئی جہتوں سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی دنیا کی اکثریت بہتر طور پر یہ سمجھنے لگی ہے کہ یہ جبر و تشدد‘ ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالی اب زیادہ دیر جاری نہیں رہنی چاہیے۔اسی طرح ہر سال دنیا بھر میں رمضان المبارک کے آخری جمعة المبارک کو ”عالمی یوم القدس“ مناکر اس اہم انسانی مسئلہ کو اجاگر کیا جاتا ہے اور انصاف پسند ممالک‘ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں‘ عالمی امن کے دعویدار اداروں اور اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔انہوں نے مزیدکہا کہ عالمی منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے ایک بات تو طے ہے کہ عالم اسلام کے اتحاد اور وحدت و یکجہتی کی ضرورت جتنی اس وقت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی کیونکہ اگردنیائے عالم پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مختلف اسلامی ممالک اور خطوں میں استعماری قوتوں کی سازشوں کے سبب مسلمان مشکلات و مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔ ا ن حالات میں خاص طور پر اسلامی سربراہی تنظیم (او آئی سی) کو موثر‘ متحرک ‘ فعال اور جاندار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔اسی طرح اسرائیلی ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ گذشتہ سات دہائیوں سے بالعموم اور اگست 2019 ءسے بالخصوص انڈیا کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں انسانی خون کی ارزانی‘ حقوق انسانی کی پامالی‘ خواتین کی توہین اور عصمت دری‘ بچوں کے سفاکانہ قتل عام‘ نوجوانوں پر وحشیانہ تشدد و مظالم اور بوڑھوں کو بھیانک انداز میں تہہ تیغ کرنے جیسے مناظر اور خاص طور پر ان کی نسل کشی کا سلسلہ بھی عروج پر ہے جسے فوری طور پر رکوانے کے لئے بھی آواز اٹھانا نہایت مناسب اور قرین انصاف ہوگا،کشمیرکامسئلہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹراورسلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہوناچاہیے۔ آخر میں علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ واقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی اور مسلسل قتل عام بند کرانے میں اپنا ذمہ دارانہ اور منصفانہ کردار ادا کریں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں اور مظلوموں اور محروموں کے دکھوں کا مداوا ہوسکے اوریہ عمل دنیائے عالم کو امن و سکون‘ اطمینان و خوشحالی کا گہوارہ بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکے۔
زاہد علی آخونزادہ
مرکزی سیکرٹری اطلاعات
0333-9126889