جعفریہ پریس – جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی زیرصدارت منعقدہ ’’علمائے اسلام کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی راہنما سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ امت کو تفریق کرنے میں صرف مذہب ملوث نہیں، مختلف طریقوں سے امت کو تقسیم کرنے کوششیں کی جاتی ہیں، قومیت، علاقائیت، لسانیت اور مذہب کے نام پر ہمیں تقسیم کیا جاتا ہے، علمائے اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ مذہب کے نام پر تقسیم نہیں ہونی چاہیے، لیکن چند جذباتی علماء نے تفریق کو پروان چڑھایا۔ کیا قومیت کے نام پر قیادت کرنے والوں نے وحدت کا مظاہرہ کیا ہے، متحدہ مجلس عمل ہو یا دیگر ملی پلیٹ فارم علماء ہمیشہ اکٹھے نظر آئے اور انہوں نے یک زبان ہر کر امت واحدہ کا نعرہ لگایا۔ عالم کفر امریکہ کی انتہائی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے بھی مسلمان اور اسلام کو کمزور کیا جائے، روس کے خاتمہ کے بعد نیٹو کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن امریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیا، موقف اختیار کیا گیا کہ اسلام ہمارے راستے کی رکاوٹ ہے،عالم کفر صرف اسلام کے خاتمہ پر تلا ہوا ہے۔ مولانا عطا الرحمن نے کہا کہ سعودی عرب اور یمن کے مابین پروان چڑھنے والی فضا پر پارلیمنٹ میں جے یو آئی کا موقف تھا کہ قرآن کے مطابق اگر دو مسلمان آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو، پاکستان بجائے اس کے وہاں کی جنگ میں شرکت کرے، بہتر یہ ہے کہ صلح کی کوشش کی جائے، نبی کریم (ص) نے کہا کہ تم ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ تعاون کرو، ظالم کو ظلم سے روکو، یہ اس کے ساتھ تعاون ہے۔ اس صلح میں کردار کے لئے ہمیں آٹھ سال پیچھے جانا ہوگا، پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے، سعودیہ کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ ایک عقیدے اور ایمان کا ہے، اگر حرمین شریفین کو کے متعلق کوئی جذبات دکھائے تو یہ نہیں کہ صرف پاکستان کا مسلمان بلکہ پوری دنیا کا مسلمان کسی کا خاطر میں نہیں لائے گا۔ سفارتی سطح پر پاکستان کو صلح کرانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے، امریکہ کی خواہش بدامنی جبکہ اسلام سلامتی کو خواہاں ہے۔ اعلامیہ کے ساتھ جے یو آئی سو فیصد اتحاد کرتی ہے۔ وحدت و اتحاد کے پروگرامات کی تائید کرتے ہیں۔