کہاجاتاہے کہ صدیوں پہلے عقاب اورشاہین زمین پرمرغی اوربطخ کی طرح زندگی بسرکیاکرتے تھے۔اُس وقت بھی آج ہی کی طرح کے جان لیواسیلاب آتے تھے۔ایک بارسیلاب آنے اوربہت کچھ گنوانے کے بعدکچھ ذمہ داراور سمجھدارشاہین اکٹھے ہوئے اوربولے کہ ہرسال ہمارے ہاں سیلاب آجاتے ہیں اوردوسرے نقصانات کے علاہ ہماری نسل کی بربادی کرکے چلے جاتے ہیں۔ جواورجتنے شاہین پروازکرکے اونچے درختوں اورچٹانوں پرچلے جاتے ہیں وہ اِس قدرتی آفت اورنقصان سے بچ جاتے ہیں ۔کیایہ بہترنہیں ہے کہ ہم ہرسال عارضی طورپردرختوں اورچٹانوں پربسیرابنانے کی بجائے مستقل طورپراونچے اوربلندوبالادرختوں اورچٹانوں کوہی اپنامسکن بنالیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اِس سالانہ سیلابی تباہی سے بچ جائے۔ تمام شاہینوں نے اِس تجویزکونہ صرف قبول کیابلکہ اُسی وقت عمل کرلیااورآج تک نہ صرف وہ سیلابی خطرات سے بالکل بے فکراورآزادہیں بلکہ آسمان کی فضاؤں اوربلندیوں پر بھی اُن کاراج ہے۔ مزیدیہ کہ نہ صرف وہ پرندوں کے بادشاہ ہیں بلکہ ہردنیاوی بادشاہ کے ہاتھ کی زینت بنتے ہیں جب وہ خرگوش، ہرن اورتلورکاشکارکرنے نکلتے ہیں ۔ڈاکٹرمحمد اقبال جیسے مفکراورعلامہ بھی اشرف المخلوقات اِنسان کواپنی ساری زندگی کم سے کم شاہین بنانے کاخواب دیکھتے رہے اوراپنے اشعارمیں نوجوانوں کوعقابی صفات اپنانے کادرس دیتے رہے۔کیاہی بہترہوتا کہ خادم اعلیٰ کہلانے والے وزیراعلیٰ اپنے سے کم ترمخلوق شاہین سے کچھ توسبق سیکھ لیتے اور ہرسا ل پاکستان میں آنے والے سیلاب سے نمٹنے کیلئے ،شاہینوں سے بڑھ کرکوئی عملی منصوبہ سازی کرتے ۔لاہور، راولپنڈی اورملتان میں میٹروبسوں کوشہرکے اوپر اوپر؛ ستونوں پرکھڑے پُلوں پردوڑانے کی خاطر اربوں اورکھربوں روپے غیرضروری خرچ کرنے کی بجائے سیلاب کی روک تھام اور نقصانات سے بچاؤ کی خاطرچھوٹے اوربڑے ڈیموں کی تعمیر پر لگادیتے توبہترہوتا ۔کیونکہ ڈیم بننے سے ایک توسیلاب پر قابوپالیاجاتااوردوسری اہم بات یہ کہ ڈیموں پر بجلی گھر بناکر ایٹمی پاکستان میں چھائے لوڈشیڈنگ کے اندھیرے بھی دورہوجاتے اور روشن پاکستان کی خیالی تصویرمیں عملی اورحقیقی رنگ بھر جاتے۔ قدرتی آفات پہلے بھی آتی رہیں ،اب بھی آرہی ہیں اورآئندہ بھی آتی رہیں گی۔یہ انسانی آزمائش، تکلیف یاپھر عذاب کی شکل ہوسکتی ہیں۔ سیلاب ، بارش سے بنتے ہیں اوربارش کورحمت کہاجاتاہے لیکن ہرچیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے اوریہی رحمت جب حدسے بڑھ جاتی ہے توزحمت یاعذاب بن جاتی ہے ۔لیکن اِس تکلیف اورزحمت کوختم نہیں توکم کیاجاسکتاہے اورآج کے دورمیں بہت سے قومیں اورممالک کررہے ہیں۔
اب توسائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کم ازکم ایک ماہ پہلے بارشوں کی پیشین گوئی کررہی ہے۔صرف پیشین گوئی ہی نہیں اگرملک چین کی طرح انسانی محنت پریقین کرلیاجائے توہونے والی بارش کووقت سے پہلے کسی اورمناسب جگہ پربرسایاجاسکتاہے بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ سائنسدان ،اپنے علم کی بدولت، بارش برسانے والے بادلوں کارُخ موڑکرکسی اورشہر کی بجائے کسی ا ورملک کی طرف بھی بھیج سکتے ہیں۔ چین کے سائنسدانوں نے نہ صرف یہ کیابلکہ اُنہوں نے علمی کمال سے خودمصنوعی بارش اوربرفبار ی کے کامیاب تجربات کئے ہیں ۔لیکن ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں وہ بارش اوررحمت کے بادل جہاں چاہتے ہیں برسادیتے ہیں، ہم سیلابی ریلوں میں گھٹنوں تک پانی میں کھڑے ہوکر،کسی غریب کوگلے لگاکراورتصویریں بنواکرمجبورعوام کوہرسال مزیدبے وقوف بنانے کی مشق کرتے ہیں۔یہ اوربات ہے کہ ہم ایٹمی ملک ہیں لیکن ایٹم بم بناکراِس کی حفاظت میں ایسے لگے ہوئے ہیں جیسے چھتری لیکرکوئی آدمی اُسے دھوپ اوربارش میں اِستعمال کرنے سے پرہیزکرتاہے اورسنبھال کررکھ لیتاہے۔
مون سون کی بارشیں ہر سال آتی ہیں اورانتظاربھی ہوتا ہے کہ بارشیں آئیں گی توگرمی کازور ٹوٹ جائے گا اورفصلوں کوبھی خوب فائدہ ہوگا۔ویسے بھی کراچی والوں نے اِس باربارش کیلئے زیادہ دعائیں مانگی ہوں گی کیونکہ اِس سال کراچی میں گرمی اورحبس سے 1800سے زائد لوگ زندگی کی بازی ہارگئے۔یہ اوربات ہے کہ بارشوں نے بارباراورہرسال آکرپاکستانی حکمرانوں کوبے نقاب کرنے اورغفلت میں سوئی قوم کوجھنجھوڑنے کاتہیہ کررکھاہے ۔اِس سال بھی حسبِ معمول اورحسبِ توقع مون سون بارشیں جی بھر کر برسیں اور غریبوں کی چھتوں ، دیواروں اورفصلوں کوزمین بوس کردیا۔سیلابی پانی میں جگہ جگہ کھڑے ہوکرتصویریں بنانے والے وزیراعظم اوروزیراعلیٰ یہ نہ بتائیں کہ آپ کہاں کہاں سیلابی پانی میں کھڑے ہیں بلکہ صرف یہ بتائیں کہ3بار وزارتِ عظمیٰ اور6باروزارت اعلیٰ لینے کے بعدبھی سیلابی پانی جگہ جگہ کیوں کھڑاہے ؟اس کوروکنے یااستعمال میں لانے کیلئے کیاپالیسی بنائی گئی ؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب 2010ء کاسیلاب آیاتواُس کے بعد جوڈیشل کمیشن نے جورپورٹ مرتب کی تھی اورجوتجاویزدی تھیں اُن کونظراندازکیوں کیاگیا؟اُس سیلاب کوٹیسٹ کیس کیوں نہیں بنایاگیا؟ اُس سیلاب کوآخری سیلاب سمجھتے ہوئے تاریخی سبق کیوں نہیں سیکھاگیا؟وفاقی ادارہ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی جو1976ء کے تباہ کن سیلاب کے بعدجنوری 1977ء کووجودمیں آیا،جس کوبنے ہوئے اب تک 38سال ہوگئے ہیں اورجس نے کئی سیلاب اورقدرتی آفات دیکھی ہیں۔ ہلالِ امتیازرکھنے والی فعال شخصیت میجرجنرل محمدسعیدعلیم جیسی ہستی اب جس کوکمانڈکررہی ہے ،جس کے پاس اربوں روپے کے فنڈزہیں ،اتنے پرانے وفاقی ادارے نے سیلاب کوکنٹرول کرنے کیلئے کیاکیا؟ جس کی ذمہ داریوں میں “سیلاب کی پیش گوئی اوروارننگ نظام میں بہتری اورسیلاب کے پانی کوکنڑول اورذخیرہ کرنے کی سفارشات تیارکرنا”شامل ہیں۔طوائف الملوکی کی پاکستان میں انتہا ہے کہ اِس ترقی یافتہ دورمیں اورایٹمی پاکستان جیسے ملک میں فیڈرل فلڈکمیشن کی ویب سائٹ ابھی تک نامکمل اورتعمیر کے مرحلے میں ہے۔جس وفاقی سیلابی کمیشن کی ویب سائٹ نہ بن سکی ہواُس نے غریب متاثرین کے تباہ شدہ اورگرے ہوئے مکانات خاک بناکے دینے ہیں۔ میری آنکھوں نے اکتوبر 2005ء کشمیرمیں آنے والے زلزلے کی تباہی کودیکھاہواہے۔اِس قدرتی آفت سے نمٹنے اورزلزلہ متاثرین کیلئے دنیابھرسے پاکستان کوکم ازکم600 ارب روپے کی امداددی گئی لیکن 10سال گزرگئے اورتیسری حکومت آگئی ،زلزلہ متاثرین کی بحالی کاکام ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔حکومت وقت سے بس یہی گذارش ہے کہ آپ کے بچے ملکی سطح پر پولٹری یعنی مرغی کاکاروبارضرورکریں لیکن غریب کے گھرمیں ایک دومرغیاں اوربھیڑبکریاں جواُس غریب ،غریب کے بچوں اورغریب کے مہمانوں کی خدمت اورتواضع کیلئے رکھی گئی ہیں ،اُن مرغیوں اور بھیڑ بکریوں کی زندگی کے تحفظ کوبھی یقینی بنائیں جواِس سیلاب سے سینکڑوں کی تعدادمیں مرگئی ہیں یاسیلابی ریلے میں بہہ گئی ہیں۔آپ جتناجی چاہے شوگراورکپڑے کی ملیں لگائیں لیکن اپنی شوگر مل کوبچانے کیلئے غریبوں کے سینکڑوں دیہاتوں کوسیلابی دہشت گردی کی نذرنہ کردیاکریں۔آپ کی مرضی ہزاروں ایکڑزمینوں کی خریدوفروخت کریں اورکئی کئی سوکنال کے بڑے بڑے فارمزبنائیں اوراُن میں شاد اور آباد رہیں لیکن غریب کے چند مرلہ مکان کی چھت اُس کے سر پرنہ گرنے دیں اورنہ ہی سبب بنیں۔ حیرانی کی بات ہے آپ کے گھر کاایک مورکسی ملازم کی بے احتیاطی اورکوتاہی سے مرجائے تو7حکومتی اہلکارمعطل ہوجاتے ہیں اورانکوائری شروع کرادی جاتی ہے لیکن آپ کی کوتاہی اورغفلت سے اِس سیلابی آفت اورطوفان سے سینکڑوں انسان مرجاتے ہیں ،درجنوں دیہات تباہ ہوجاتے ہیں ،لاکھوں ایکڑزمین پرلہلہاتی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اورہرسال ہزاروں لوگ دربدرہوجاتے ہیں ۔ قصوروارنہ تو استعفے دیتے ہیں ،نہ معذرت کرتے ہیں،نہ اُن کے چہرے پر ندامت کے آثارنظرآتے ہیں اورنہ ہی آئندہ کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔البتہ خادم اعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف کایہ کہناکہ سیلاب میں پھنسے بھائیوں کیلئے میراہیلی کاپٹرحاضرہے ،حیران کن ہے۔کیونکہ اِس محترم شخصیت سے کوئی پوچھے کہ اگرعوام آپ کے بھائی ہوتے توکبھی بھی اِس آفت کاشکارنہ ہوتے ۔دوسری بات یہ کہ یہ عوام کاہیلی کاپٹرہے نہ کہ آپ کاذاتی۔صرف آپ خادم اعلیٰ اگرصحیح معنوں میں ادنی ٰخادم بن جاتے توعوامی مسائل کب کے حل ہوچکے ہوتے۔بس ایک بات ذہن نشین رہے کہ قوم سے ووٹ اور ٹیکس لے کرحکمرانی کرنااورقوم کاخیال نہ کرنا، انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے اورظلم کرنے والی حکومتیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتیں۔
- گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
- حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
- جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
- پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
- رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
- مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
- گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
- فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
- شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
- علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات