جعفریہ پریس – دفتر نمایندہ ولی فقیہ و قائد ملت جعفریہ پاکستان قم المقدسہ میں یمن کی تازہ ترین صورتحال سے آگاھی کے لئے منعقدہ ایک معلوماتی نشست میں حوزہ علمیہ قم کے استاد اور دفتر قائد ملت جعفریہ قم کی مجلس نظارت کے معزز رکن علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے عالمی حالات کے تناظرمیں مشرق وسطی کی کشیدہ صورتحال پر قائد ملت جعفریہ پاکستان کی مدبرانہ حکمت عملی سے طلاب کو بھترین انداز میں اگاہی دی –
علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین علی ؑ کی وصیتوں پر نظر کی جائے تو تین قسم کی وصیتں نظر آئیں گی کچھ وصیتوں میں اہل ایمان سے خطاب ہے تو کچھ میں اہل اسلام سے خطاب ہے تو پھرکچھ میں عالم انسانیت سے خطاب ہے- انہیں عالم انسانیت پرمحیط وصیتوں میں سے ایک وصیت میں عالم انسانیت کو خطاب کیا گیا ہے، علی مولا فرماتے ہیں ہے کہ ہمیشہ ظالم کے مخالف اور مظلوم کے حامی بنو- اس وصیت کی روشنی میں اب ظالم کافر، مسلمان یا مومن و شیعہ ہی کیوں نہ ہو اس کی مخالفت کرنا لازمی ہے اسی طرح مظلوم مومن و شیعہ ،مسلمان یا کافر ہی کیوں نہ ہو اس کی حمایت لازمی ہے – علی مولا کی اس وصیت پر امام حسن مجتبی اور آئمہ معصومین سمیت تشیع کے اکابرین نے عمل پیرا ہوکر ہمیشہ اس کی پاسداری کی ہے – آپ آج دیکھ رہے ہیں دنیا کے اندر جھاں بھی ظلم ہوا ہے سب سے پہلے اس پر مظلومین کی حمایت اور ظالمین کی مخالفت میں شعیان علی نے ہی آواز بلند کی ہے –
دفتر قائد ملت جعفریہ قم کی مجلس نظارت کے معزز رکن علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے مزید کہا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین حسینی نے فرمایا تھا ہماری تین حیثیتیں ہیں سب سے پہلے مسلمان ہیں عالم اسلام اور انسانیت سے غافل نہیں رہ سکتے پھر پاکستانی ہیں وطن عزیز اور پاکستان کے امور سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے اور اسی طرح اسلام کے مسلمہ مکتب و مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اس کی ترجمانی اور حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے- موجودہ قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی انہیں اصول ثلاثہ پر عمل پیرا ہیں-
علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے کہا کہ مشرق وسطی میں یمن کی کشیدہ صوتحال پرجب عالم اسلام اور انسانیت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے وقار کو داؤ پر لگانے اور مذہبی تنازعہ کھڑا کرنےکی سازش دکھائی دی تو اس عظیم قائد نے عالم اسلام اور انسانیت کی ترجمانی اور وطن عزیز کے وقار کی پاسداری کرتے ہوئے بہترین موقف اختیار کیا اور پاکستان میں سب سے پہلے جو بیان جاری ہوا ہماری قیادت کی طرف سے تھا، قائد ملت جعفریہ نے زمان حال کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ایسا بیان دیا جو مؤثر تریں ثابت ہوا جس کی تمام تر سیاسی و مذہبی قائدین نے تائید و حمایت کی یہاں تک پاکستان کی پارلیمان نے بھی اسی کی تائید و حمایت میں فیصلہ دیا کیوں کہ موقف ہی اتنا پختہ اور جاندار تھا کہ عالمی قوانین، ملکی آئین اور قرآن کی روشنی میں اس سے گریز ممکن نہ تھا، حکیم قائد کے ایک جملے( پاکستان ایک مقتدر اسلامی ملک ہے اور دو مسلمان ممالک کے درمیان پاکستان مصالحت کا کردار ادا کرے ) نے پاکستان کا کایا پلٹ دیا – اگرقائد ملت چاہتے تو یمن کی مظلوم عوام کی حمایت ریلیوں کی صورت میں بھی کر سکتے تھے اور یمنیوں کی حمایت میں تاریخی ریلیاں نکالی جا سکتی تھیں لیکن اس میں احساسات و جذبات کی ترجمانی تو ہو سکتی تھی مگر اس سے پورے خطے اور وطن عزیز میں نہ بجھنے والی آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے – وقت کا تقاضا اسی میں تھا جو قائد ملت نے انجام دیا اس سے عالم اسلام اور انسانیت کا دفاعی عنصر اور وطن عزیز کے وقار کی سربلندی موجود تھی – میں سلام پیش کرتا ہوں اپنے حکیم و با بصیر قائد پر جنہوں نے تشخیص دی کہ یمنیوں کی حمایت احساساتی ریلیوں میں نہیں بلکہ دور اندیشی میں ہے اور حکمت و دور اندیشی سے ایسا موقف اختیار کیا جس کے وطن عزیز اور عالمی سیاست پر اثرات مرتب ہوئے، پاکستانی حکمرانوں کو اپنا موقف بدلنا پڑا، ترکی موقف میں تبدیلی آئی- پاکستانی پارلیمان نے متفقہ قرارداد پیش کی- پارلیمان کے اس فیصلے پر آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہماری پارلیمان، آزاد پارلیمان ہے جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے –
علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے کہا کہ پارلیمنٹ فیصلہ کے بعد متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے جو نا زیبا جملات کا اظہار کیا ہے اس کی جرئت کا موقع بھی ہمارے حکمرانوں نے دیا- ان کے ساتھ بند کمروں میں ایسی نشستیں کی اس کا نتیجہ ہے بند کمروں میں تو ان کے ساتھ ہراقدام کی حامی بھری تھی جس کا واضح ثبوت ہے کہ اتحادیوں میں پاکستانی پرچم بھی موجود تھا اگرہمارے حکمراں راضی نہ تھے تو پاکستانی پرچم کیسے نصب ہوا-
انہوں نے کہا کہ یمن کے حوالے سے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سمیت مختلف کانفرنسوں اورمیڈیائی گفتگو میں قائد ملت نے ایسا مدلل موقف اختیار کیا جس وجہ سے پارلیمان اراکین بھی اس طرح کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے –
علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے کہا کہ آپ حضرات نے سنا ہوگا قائد ملت کی کال پر یمن کی حمایت میں علماء اسلام کی دو کانفرسیں ایک کراچی میں اور ایک اسلام آباد میں منعقد ہوئیں، جن میں ملک کی برجستہ شخصیات اور مذہبی قائدین نے خطابات کئے، اسلام آباد کانفرنس میں ملت جعفریہ کی دوعظیم نامور شخصیات استاد علامہ شیخ محسن علی نجفی اورعلامہ آیت اللہ حافظ ریاض حسین صاحب نے خطاب کیا- یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے ساجد علی نقوی کی زندگی کو ہاتھ کی ہتھلی کی طرح دیکھا ہے- استاد محترم علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں الحمد للہ الحمد للہ ہمیں ایسا قائد نصیب ہوا ہے جس نے ہمیشہ بہترین اسلامی سیاسی موقف پیش کیا اور یمن پربھی ان کا بہترین اصولی، اسلامی سیاسی موقف ہے، علمائے اسلام کانفرنس کا انعقاد اسی کا حصہ ہے، اسی طرح علامہ حافظ ریاض حسین نجفی فرماتے ہیں علامہ ساجد نقوی کا نام ساجد ہے، وہ اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکتے- انہوں نے کہا کہ پھر جب قائد انقلاب اسلامی کا بیان سنتے ہیں تو وہ بھی مکمل ہم آہنگ نظر آتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سلسلہ ولایت کی کڑی ملی ہوئی ہے-
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے یمن سعودی تنازعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطن کے دفاع کرنے والوں پرظلم کی انتہا ہے، ان کی حمایت تو نہیں کی جاتی بلکہ باغی جیسا پست عنوان دیا جا رہا ہے، وسیع پیمانے پر میڈیا ، تجزیہ نگار اور حکمراں انہیں باغی کا عنوان دے رہے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں حق ابن حق امام حسین علیہ السلام کو بھی کربلا میں باغی قرار دیا گیا- علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے کہا کہ خطے میں موجود دہشت گرد داعش ،جبہہ النصرہ، القاعدہ اور طالبان کو باغی کیوں نہیں کہا جاتا، جبکہ ملک میں ضرب عضب تو طالبان کے خلاف ہے- میڈیائی ذرائع ابلاغ، تجزیہ نگار اور حکمرانوں کو تو انہیں باغی قرار دینا چاہئے بجائے اس کے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے اور وطن کے مدافعین کو باغی کہنا ظلم عظیم ہے- یمنیوں پرظلم کی انتہا ہے سلامتی کونسل جس سے امیدیں وابستہ تھیں قرارداد پاس ہوتی ہے کہ حوثیوں پر محاصرہ جاری رہے اور کوئی حکومت ان کو اسلحہ وغیرہ دینے کی مجاز نہیں- عرب کونسلیں تو مردہ ہوچکیں ان کا جنازہ نکل چکا، لیکن سلامتی کونسل کا فیصلہ تعجب برانگیز اور شرم آور ہے جس میں جارح و ظالم کو نظر انداز کیا گیا اورناجائز محاصر ے کی تائید کی گئی-
دفتر قائد ملت جعفریہ قم کی مجلس نظارت کے معزز رکن علامہ سید سجاد حسین کاظمی نے کہا کہ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یمن کے آئینی حکمران نے ہم سے مدد طلب کی اس لئے جائز حکومت کے دفاع میں باغیوں کے خلاف جنگ شروع کی لیکن سعودی حکمرانوں سے سوال یہ ہے کہ یہی موقف لیبیا، تونس، مصر، شام اور عراق میں کیوں اختیار نہیں کیا گیا- عراق میں تو جمہوری وآئینی منتخب حکومت کے خلاف داعشیوں کو فڈنگ کرتے ہوئے نظر آئے-
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے کہا کہ یمن کی جنگ نہ تو شیعہ سنی جنگ ہے اور نہ ہی ایران سعودی جنگ بلکہ امریکہ کی سعودی تیل پر نظریں ہیں – وہ سعودی کے داخلی حالات کو خراب کرنے کے درپے ہے جو اوباما کے بیان سے بھی واضح ہے کہ مجھے سعودی عرب پر باہر سے زیادہ اندر سے خطرہ نظر آرہا ہے یہ اشارہ ہے کچھ گروپس سے داخلی فضا کو خراب کرانے کا تاکہ صلح کا نام نہاد علمبردار جناب امریکہ سعودی عرپ پر صلح کے بہا نے مسلط ہو اور سعودی تیل حاصل کرے –