پاکستان کی تنظیمی دنیا کے سرخیل ڈاکٹرسید محمد علی نقویؒ کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے ۔ ان کی شہادت کے بعد شیعہ قومی پلیٹ فارم”تحریک جعفریہ پاکستان” کو بعض افراد نے ڈاکٹر شہید ؒکی طرف بعض باتوں کو منسوب کر کے تقسیم کیا ہے۔ پاکستان کے شیعہ تنظیمی نوجوان دو دھڑوں میں تقسیم ہیں ؛ اس مختصر تحریر میں ڈاکٹر شہیدؒ کی زندگی کے پوشیدہ پہلوؤں کو حوالہ کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ حق و حقیقت کے متلاشی نوجوانوں کو اپنا راستہ متعین کرنے میں آسانی رہے اور آپس کا اختلاف کم ہو اور سب ایک ہی راہ کے راہی بن سکیں۔
بسا اوقات جب ۶جولائی کی “قرآن و سنت کانفرنس”کی کامیابی اور عوامی جوش و خروش کا تذکرہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحب بتاتے کہ اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے علامہ سید ساجد علی نقوی و دیگر زعمائے قوم کام میں مصروف تھے۔ (سفیر انقلاب،ص۱۲۹، سال اشاعت ، فروری۱۹۹۶ء)
(علامہ ساجد نقوی ملت کی سربلندی کے کاموں میں مصروف ایک شخصیت کا نام ہے)
۶جولائی ۱۹۸۷ء کی قرآن و سنت کانفرنس کے اجتماع کے لئے جلسہ گاہ کے اہم اور حساس مسئلہ پگھلو
امہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی تجویز پر ان کے تمام رفقاء نے اختلاف کیا اور ڈاکٹر صاحب بھی دلی طور پر قائد کی تجویز سے مختلف تھے۔ مگر جونہی قائد نے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ کانفرنس”مینارپاکستان” پر منعقد ہونی چاہئے تو ڈاکٹر صاحب نے لبیک کرتے ہوئے حامی بھری اور اپنے قریبی ساتھی سے کہا:” اس شخص کی بات تین حوالوں سے ہم پر حجت ہے ایک یہ کہ یہ ہمارے قائد ہیں دوم یہ کہ ان کی ہر بات کے پیچھے کوئی اور طاقت گویا ہوتی ہے سوم یہ کہ یہ امام خمینیؒ کے نمائندہ ہیں لہذا ان کی کسی بات کے آگے چوں و چرا گناہ کرنے کے مترادف ہے۔” (سفیر انقلاب،ص۹۱)
(علامہ سید ساجد علی نقوی امام خمینیؒ اوررہبر معظم سید علی خامنہ ای کے نمائندہ رہے اور ہیں؛ ملت جعفریہ پاکستان کے آئینی اور قانونی قائد بھی ہیں اور ممکن ہے کہ ان کی ہر بات کے پیچھے بھی کوئی اور طاقت گویا ہوتی ہو)
ڈاکٹر صاحب جب جیل سے رہا ہوئے تو قائد شہید کے چہلم کا اعلان ہو چکا تھا اور اس وقت کے قائم مقام صدر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی لائحہ عمل تیار کر رہے تھے۔ آپ جیل سے سیدھا مدرسہ “آیت اللہ الحکیم” راولپنڈی چلے گئے اور علامہ سید ساجد علی نقوی کو شہید قائد کاپرسہ دیا۔(سفیر انقلاب،ص۱۳۷)
قائد شہید کے چہلم کے موقع پر جب موجودہ قیادت نے ڈیرہ اسماعیل خان میں روٹ بحال نہ کرنے کی صورت میں ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ء کو ماتمی جلوس برآمد کرنے کا اعلان کیا تو ڈاکٹر شہید”کربلائے ڈیرہ اسماعیل خان” کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوگئے۔آپ نے ڈیرہ کے جذباتی نوجوانوں کو دلائل کے ساتھ قابو میں لایا۔ آپ نے فرمایاکہ”ہمارا مقصد بغاوت نہیں بلکہ مرکز کی پالیسی کے مطابق ہم پہلے مرحلہ میں مذاکرات سے مسئلہ کا حل چاہیں گے اور اس کے بعد پُرامن احتجاج کریں گے۔” (سفیر انقلاب،ص۱۳۸)
یہاں تک کہ جب جلوس نکالنے کا وقت آیا آپ نے قائد محترم سے رابطہ کیا انہیں صورتحال سے آگاہ فرمایا اور ان سے ہدایات لیں۔ آپ قائد سے رابطہ کر کے نوجوانوں میں آئے تو فرمایا کہ ” قائد نے فرمایا ہے کہ عَلم عباسؑ اٹھاؤ۔۔۔قدم بڑھاؤ۔۔۔ امام زمانہؑ آپ کے حامی و ناصر ہوں۔” (سفیر انقلاب،ص۱۴۰)
(ڈاکٹر شہیدؒ بھی مذاکرات ، پُرامن احتجاج اور اپنے مرکز کی پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔۔۔جذباتی نوجوان ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر شہیدؒ قائد موجود سے ہدایات لیتے تھے دیتے نہیں)
۱۹۸۹ءمیں سید اعجاز علی شاہ صاحب سے جب ڈاکٹرشہید نے ساتھ دینے کی حامی بھری تو قیادت نے ادارہ قائم کرنے کی اجازت دے دی اور آج “جعفریہ ویلفیئر فنڈ” قومی خدمت کا بے مثالی ادارہ بن چکا ہے۔(سفیر انقلاب،ص۱۶۲)
(یعنی قائد موجود ایک بااعتماد ،مخلص اور فعال کارکن کے کاموں کی حمایت کرتے ہیں ہر کسی کی نہیں)
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی نے فرمایا: علامہ سید ساجد علی نقوی کا پروگرام ۳۰ ستمبر والا بڑا اچھا رہا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ چھوٹے موٹے اختلاف کے علاوہ کوئی شدید قسم کے اختلاف نہیں ہیں۔ اسلام کے اندر عوام شدت اختیار کرنے کے لئے ایک بہانہ تلاش کرتے ہیں علامہ سید ساجد علی نقوی نے آئی ٹن میں جو ایک بہت بڑا تنازعہ کا موضوع بنا ہوا ہوتا تھا بہت اچھے انداز میں حل کیا۔ انہوں نے کہا کہ کون ہیں وہ لوگ جو ہمیں کہتے تھے کہ یہ عزاداری کے دشمن ہیں۔ آج ہمیں وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں۔ (مجلہ تحریک، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا انٹرویو،ص۱۹، فروری ۱۹۹۶ء)
(مسائل کا آسان حل قائد موجود کے پاس ہوتا ہے۔۔۔ گرہ اگر ہاتھ سے کھل جائے تو اسے دانتوں سے کھولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔ عزاداری کے معاملے میں شروع سے ہی قائد موجود کلیئر ہیں کہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا)
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہید نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اندر ایک کیفیت پیدا کرنی چاہئے اس کے معنوں میں ہمیں شخصیت کو پہچاننا چاہئے اور ہماری ہر سطح پر شخصیت مضبوط ہے۔ میں کہتا ہوں کہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی کاوشیں بہت نمایاں کاوشیں ہیں۔ (مجلہ تحریک،شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا انٹرویو،ص۱۹، فروری ۱۹۹۶ء)
(تمام مخلصین کی کوششیں قابل تحسین ہیں لیکن قائد موجود کی کوششیں نمایا ں ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔۔۔ ساجد، ساجد است)
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے جب پی پی پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا تو تسلیم رضا خان نے ڈاکٹر شہید سے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ ہماری روحانی قیادت نے عورت کے ساتھ اتحاد کیسے کر لیا ہے کہ یہ عورت کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والی بات نہیں ہے؟
ڈاکٹر شہید: یہاں سیاست اسلام کے تحت نہیں، آئین کے تحت ہوتی ہے۔۔۔ ہماری قیادت نے عورت کو اپنا سربراہ تسلیم نہیں کیا ملک کا آئین عورت کو حکمران بننے کی اجازت دیتا ہے۔ (سفیر انقلاب،ص۱۴۸)
تسلیم رضا خان:ہمیں اس اتحاد میں کیا فائدہ ہے؟
ڈاکٹر شہید:ہم فرقہ کی سطح سے اٹھ کر سیاست کی وسیع سطح پر پہنچے ہیں اور ملک کے بڑے سیاسی اتحاد میں اپنا تشخص بطور سیاسی جماعت پیش کیا ہے۔ (سفیر انقلاب،ص۱۴۸)
(سیاسی معاملات کو قائد موجود باحسن سمجھتے اور جانتے ہیں کہ کس کے ساتھ سیاسی اتحاد کرنا ہے کس کے ساتھ نہیں۔۔۔ قائد موجود کی سیاسی سوچ نے ملت جعفریہ پاکستان کو فرقہ کی سطح سےبلند کیا ہے اور اسے ایک جماعت و مکتب کے طور پرشناخت کرایا ہے)
شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے ایک اور انٹرویو سے بھی اقتباس ملاحظہ ہو:
سوال:آپ نے آئی ۔او سے اعلان بیزاری کیوں کیا؟
ڈاکٹر شہیدؒ:جب تک آئی۔او اپنے بنیادی اغراض ومقاصد سے انصاف کرتی رہی میں اس سے مربوط رہا اور جب میں نے محسوس کیا کہ اس میں غیر تنظیمی افراد داخل ہورہے ہیں اور تنظیم کے اغراض ومقاصد میں نمایاں تبدیلی آئی ہے تو میں نے اسے چھوڑنا بہتر سمجھا ہے۔
سوال:آئی۔او اگر معاشرہ میں ملت کے افراد کوفعال کرتی ہے اور قومی طاقت کے طور پر منظر عام پر آ کر اسلامی معاشرہ کا قیام عمل لاتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟
ڈاکٹر شہیدؒ:اس مقصد کے لئے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان موجود ہے۔
سوال:بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ ملت جعفریہ کے بعض تعلیم یافتہ لوگ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان میں علماء کرام کے زیر اثر کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جبکہ وہ آئی۔او کے پلیٹ فارم پر متحد ہیں اور اس طرح سے وہ قومی قوت میں اضافہ کا باعث ہیں؟
ڈاکٹر شہید:اگر کچھ لوگ علماء کرام کے ماحول میں کام کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ علیحدہ تنظیمیں،دستور،ڈھانچے اور قیادتیں منظر عام پر نہ لائیں بلکہ تحریک کے دائرہ میں داخل ہوکر اسے وسعت بخشیں اور ایسا ماحول پیدا کریں کہ جو ہرفرد کےلئے قابل قبول ہو۔ (سفیر انقلاب، ص۱۱۶۔۱۱۷)
ڈاکٹرشہید کی صراحت سے معلوم ہو گیا کہ اگر نوجوان ڈاکٹر شہید کے راستے پر گامزن رہنا چاہتے ہیں تو انہیں قومی پلیٹ فارم (تحریک)سے ہی مربوط رہنا ہو گا۔
مخفی نہ رہے ڈاکٹر صاحب کا یہ انٹرویو۱۹۸۹ء میں کیا گیا ہے۔( سفیر انقلاب،ص۱۱۶)سوال پیدا ہوتا ہےکہ بالآخر یہ تعلیم یافتہ لوگ کون تھے،جو علماء کرام کے زیر اثر کام کرنے میں ہچکچاہٹ کاشکار تھے؟اور انہیں ڈاکٹر شہید علیحدہ تنظیم اور قیادت کو منظر عام پر لانے سے منع کر رہے تھے؟!
ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی شہادت سے ایک روز قبل اپنے تمام قریبی ساتھیوں کو آگاہ کر رہے تھے کہ ذمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دہشت گرد، تحریک جعفریہ کی کسی بڑی شخصیت کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا آپ سب احتیاط کریں مگر ڈاکٹر شہید ہی ان کا نشانہ بن گئے۔بالکل اسی طرح شہید مظفرکرمانی نےبھی شہادت سے چند روز قبل ہی اپنے تمام قریبی ساتھیوں کو آگاہ کیاتھا کہ احتیاط کریں کیونکہ دہشتگرد، تحریک جعفریہ کی فعال شخصیت کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر شہید کرمانی ہی ان کا نشانہ بنے۔ (تذکرہ شہدائے ملت جعفریہ کراچی،حسن مرتضیٰ، ص۲۸۴)
اب تھوڑا اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ۵مارچ۱۹۹۵ءشب اپنے کلینک سے فارغ ہوکر ڈاکٹر صاحب اپنے بچوں کے ہمراہ سید ذولفقار علی نقوی کے گھر چلے گئے۔جو اس وقت تحریک جعفریہ کے راہنما کی حیثیت سے سرکاری سطح پر کی جانے والی گرفتاریوں کی بدولت جیل میں تھے۔آپؒ۶ مارچ کومعمول کے مطابق اسپتال ،تحریک (جعفریہ)کے دفتر،فلاحی دفتر اور کلینک پر گئے۔(سفیر انقلاب،ص۲۷۷)اورآپ کی شہادت۷مارچ۱۹۹۵ء میں ہوئی ہے۔(سفیرانقلاب،ص۲۷۸)
اس سے معلوم ہوتا ہے ڈاکٹر شہید آخری سانس تک قومی پلیٹ سے مربوط رہے؛ اورآپ کی شہادت کے بعد ہی تحریک جعفریہ کو توڑنے کی سازش کی گئی ہے۔لیکن تمام تر سازشوں کے باوجود تحریک جعفریہ کا قافلہ آج بھی رواں دواں ہے؛تحریک جعفریہ مٹنے والی تحریک نہیں ،تحریک جعفریہ کسی جسم کا نام نہیں بلکہ ایک نظریہ اور فکر کانام ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی فرماتے ہیں:
قومیں افراد کے مرنے سے نہیں بلکہ نظریہ اور مکتب کے ختم ہو جانے سے مٹ جاتی ہیں.(تحریک جعفریہ کے اسٹیکرز)
محتاج دعا: امداد علی گھلو
- گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
- حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
- جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
- پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
- رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
- مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
- گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
- فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
- شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
- علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات