یہ کون ہے کہ جو اس طرح خشم آلود حال میں مصمم ارادے کے ساتھ مسلمانوں کے بادلِ گرداب کو چیرتا ہوا طواف سے باہر آرہا ہے اور اس با حرمت، امن مآب اور بزرگی والے شہر سے منہ موڑ کر جا رہا ہے؟
ایسے وقت میں جب کہ سارے مسلمانوں کا رخ کعبہ کی سمت ہے، اس نے کہاں کا عزم کر لیا ہے؟
کیوں لمحے بھر کو رک کر نہیں دیکھتا کہ خلقِ خدا کو نمرود کی طرح ابراہیم (ع) کے گھر کا طواف کروایا جارہا ہے۔ صفا و مروہ کے درمیان بے ہودہ دوڑ لگوائی جارہی ہے اور عرفات سے (کہ جو آغازِ آفرینش اور زمین پر آدم و حوا (ع) کی ملاقات کا پہلا مرکز ہے) عوامِ کالانعام کو رات کی تاریکی میں ان کے مشعرالحرام میں لایا جارہا ہے۔ اور شعور کی سرزمین پر۔۔۔ (کہ جس پر قدم رکھنا ان بندگانِ شب و جہل پر حرام ہے) ان کو سلایا جا رہا ہے۔ اور پھر سحر کے پاؤں کی آہٹ کے ساتھ انہیں حرکت دے کر تثلیث کے ان تین مزموم بتوں کی سرزمین منٰی کی سمت ہنکایا جارہا ہے تاکہ وہ ابراہیم (ع) سے مذاق اور اللّٰہ سے فریب کے عالم میں اپنے آدم (ع) سے آخرالزماں تک کے دائمی تین خداؤں کو کھیل کھیل میں رمی کریں۔ اور سات خوبصورت، ظریف اور رنگارنگ سنگریزوں کو شفقت آمیز ہاتھوں سے اپنے زمین و زماں کے تین خداؤں کے دمکتے چہرے پر ناز و ادا اور عاشقانہ انداز سے پھنکیں۔ اور دنبوں کو ان کی ذلت بار سرنوشت کے اشارے پر ذبح کریں کہ وہ “اغنام اللّٰہ” ہیں اور ان تین خداؤں کے دائمی نمائندوں نے ان کے اون، دودھ اور گوشت سے دُم اور پیر پھیلا کر اپنا پیٹ آباد کیا ہوا ہے کہ یہ سب ہمہ جا و زبان بستہ دائمی طور پر ان کی قربانی کے جانور ہیں اور وہ انہیں اپنے نفس کی راہ میں ذبح کررہے ہیں۔ اور ان کا سرخ لہو سبز محل، مسجدِ ضرار اور قارون کے بیت المال میں بہہ رہا ہے۔
یہ مناسک امام حسین (ع) کے کوچ کر جانے کے بعد بے فائدہ ہیں۔ جب حق و باطل کے میدان میں تمہاری شرکت نہیں ہے تو پھر جہاں چاہو رہو۔ نماز پڑھو یا شراب پیو، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب امام حسین (ع) حج کی سنت کو چھوڑ کر باہر نکلے تو جن لوگوں نے اپنا طواف جاری رکھا اور امام (ع) کا ساتھ نہیں دیا، وہ ان لوگوں سے مختلف نہیں ہیں جو شام کے سبز محل کے چکر لگاتے ہیں۔ تمہیں خود چاہئیے کہ اپنی ذمہ داری معلوم کرو کہ تمہیں وہیں رہنا ہے یا باہر نکلنا ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی