وجہ تخلیق کائنات رسول ﷺ
علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان
پیغمبر اکرم ‘ رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ِ والا صفات صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے نجات دہندہ کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ ؐ کی تشریف آوری سے قبل انسانیت جس طرح ابتری اور تنزلی کا شکار تھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہالت سے لبریز معاشروں میں انسانی اقدار دم توڑتی نظر آرہی تھیں۔ ظلم و بربریت اپنی آخری حدیں چھو رہی تھی۔ غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جارہا تھا۔ اپنی بیٹیوں کو منحوس سمجھ کر زندہ درگور کیا جا رہا تھا۔ حرام اور حلال کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔ بے حیائی اس قدر عام تھی کہ ماں بہن بیٹی بیوی کے رشتوں کا تقدس مٹ چکا تھا۔ کمزور اور نحیف طبقات کو طاقتور طبقات نے اپنے تسلط اور ظلم کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ انہیں بچانے اور تحفظ دینے کے لیے کوئی ہستی موجود نہیں تھی۔
اسی کے ساتھ انسانوں اور انسانی معاشروں کے لیے کسی نظام کا اہتمام نہیں تھا۔ کسی اجتماعی سسٹم کا وجود نہیں تھا۔ کوئی حتمی قانون یا لائحہ عمل موجود نہیں تھا۔ لوگوں کو سماجی اور سیاسی میدان میں ایک ترقی یافتہ راستے پر ڈالنے کے لیے کوئی رہنما موجود نہیں تھا۔ معاشروں کو اجتماعی دھارے میں رکھ کر آگے بڑھانے کے لیے کوئی حکومتی اور ریاستی نظام رائج نہیں تھا۔سودی نظام اور قرضوں کے ذریعے انسانوں کو پہلے مقروض اور پھر محکوم بنایا جا رہا تھا۔ سابقہ انبیاء کی تعلیمات اور شریعتوں کو یکسر بھلا کر ان میں تحریف و تبدل کر دیا گیا تھا جس کے سبب اللہ تعالے کے احکام میں سے روح نکل چکی تھی۔ ایسی پریشان کن اور المناک کیفیت میں مکہ کی فضاؤں‘ حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب علیہ السلام کے گھر اور سیدہ آمنہ سلام اللہ علیھا کی جھولی میں انسانوں کا ابدی نجات دہندہ تشریف لایا۔
حضور اکرم ؐ کی آمد دم توڑتی انسانیت کے لیے بہار اور شفاء کی نوید ثابت ہوئی۔ آپ ؐ کی ولادت با سعادت کے دن سے ہی معجزات اور کرامات کے ذریعے آپؐ کی نبوت و رسالت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ اور یہ سلسلہ تا دم آخر جاری و ساری رہا۔ آپ ؐ کی شرافت بھی ایک معجزہ ہے تو آپ کی صداقت بھی ایک معجزہ۔ آپ ؐ کی امانت بھی ایک معجزہ ہے تو آپؐ کی عبادت بھی ایک معجزہ۔ آپ کی ریاضت بھی ایک معجزہ ہے تو آپؐ کی نجابت بھی ایک معجزہ۔ شق القمر بھی ایک معجزہ ہے تو سورج کا پلٹنا بھی ایک معجزہ۔ کنکریوں کا کلمہ پڑھنا بھی ایک معجزہ تو درختوں کی گواہی بھی ایک معجزہ۔ معجزات کی ایک طویل فہرست ہے جس کا شمار ممکن نہیں۔
یہ سب معجزات برحق ہیں مگر دو ایسے اعجاز ہیں جو حضور اکرم ؐ کو رہتی دنیا تک ممتاز و نمایاں کرتے ہیں۔ ان میں پہلا معجزہ قرآن کریم ہے اور دوسرا معجزہ آلِ اطہار ؑ ہے۔ اکثر معجزات وقتی اور مخصوص وقت اور زمانے کے لیے تھے لیکن یہ دونوں معجزات قیامت اور اس کے بعد تک ہیں۔ یہ دونوں ایک ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان دونوں کے متحد و منسلک ہونے کے بارے میں خود رسول اکرم ؐ کی متعدد اور معتبر احادیث عالم اسلام کے ذخیرہ احادیث میں موجود ہے۔ یہ دونوں انسانوں کو دنیا میں ہدایت فراہم کرتے ہوئے قبر و برزخ کے مراحل تک لے جاتے ہیں پھر وہاں سے رہنمائی دیتے ہوئے حشر اور حوض کوثر پر لے جاتے ہیں۔ وہاں سے سیراب کرتے ہوئے جنت الفردوس کے آخری مقام تک لے جاتے ہیں۔
ان دو معجزات کا تذکرہ اہل ایمان اپنی اپنی محافل و مجالس میں کرتے رہتے ہیں۔ آج ہم ان میں ایک معجزہ یعنی قرآن کریم کا تذکرہ کریں گے۔ جیسے ہم نے احادیث کا سلسلہ اپنے پیارے نبی ؐ سے لیا ہے اسی طرح قرآن کا نزول بھی اپنے پیارے نبی ؐ کی زبان ِ اطہر سے مانتے ہیں۔ ہم میں سے یا صحابہ کرام میں سے کسی نے اللہ تعالی سے یا جبریل سے براہ راست ملاقات نہیں کی بلکہ جو کچھ ہمیں ملا وہ رسول اکرم ؐ کی ذات سے ملا ہے۔ اللہ کا کلام رسول اللہ کی زبانی قرآن پاک کی شکل میں ہماری ہدایت کے لیے ہمیں نصیب ہوا۔
اگرچہ اللہ تعالے نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے لیکن اس حفاظت میں بھی اسباب ِ دنیا کا تعلق موجود ہے۔ جہاں تلاوت سے قرآن کی حفاظت ہوتی ہے وہاں متن ِ قرآن کے حفظ سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔ جہاں قرآن کی اشاعت سے حفاظت ہوتی ہے وہاں قرآنی تعلیمات کے فروغ سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کا المیہ یہی رہا ہے کہ وہ قرآن کے متن کی تلاوت پر تو اپنی توانائی صرف کرتی ہیں لیکن قرآنی احکام کی صورت میں قرآن کی روح کی طرف توجہ مبذول نہیں کرتی۔ ہم قرآن کی تلاوت کو ثواب سمجھتے ہیں مگر قرآن فہمی کے بارے ہمیں توفیق حاصل نہیں ہوتی۔ جب تک ہم قرآن شناسی کے عمل سے نہیں گذرتے تب تک ہم صحیح معنوں میں قرآن کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں اس میں قرآن فراموشی اپنے عروج پر ہے۔ قرآنی تعلیمات سے رو گردانی ہماری عادات میں شامل ہے۔ اپنے مقاصد کے لیے قرآنی آیات کا استعمال ہمارے ہاں رواج پا چکا ہے لیکن امت کو جوڑنے اور وحدت قائم کرنے کے لیے ہم قرآن سے رہنمائی لینا مناسب نہیں سمجھ رہے۔ قرآن کی من پسند تشریح اور تفسیر سے ہم جہاں گناہ گار ہوتے ہیں وہاں تفرقہ سازی اور انتشار کا باعث بھی بنتے ہیں۔ یہ تو ہمارے اندر کا حال ہے لیکن اس حال سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اب اغیار نے قرآن سوزی اور قرآن کی توہین کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
یورپ کے مختلف ممالک بالخصوص ناروے‘ ڈنمارک اور فرانس وغیرہ میں قرآن سوزی‘ توہین قرآن اور قرآنی اوراق جلانے کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں۔ جنہیں حکومتی تعاون اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ مغربی ممالک اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دیگر مذاہب بالخصوص اسلام اور اسلامی شعائر کی توہین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں دردمندان نے اپنے اسلامی غیرت کے تحت احتجاج ریکارڈ کرانے کی ذمہ داری ادا کی۔ لیکن اسلامی ممالک کی حکومتوں نے اپنی ذمہ داری کا اس طرح ادراک نہیں کیا جیسے قرآن کا حق تھا۔
اس مرحلے پر ہمیں اسلامی جمہوری ایران کے صدر محترم جناب سید ابراہیم رئیسی کا ممنون ہونا چاہیے جنہوں نے اپنی اسلامی‘ دینی‘ اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اقوام متحدہ جیسے سب سے بڑے عالمی ادارے میں نہ فقط قرآن کریم کا نسخہ لہرا کر بلکہ قرآن کریم کی اہمیت و حیثیت بتا کر ان تمام ممالک کے ارادے مٹی میں ملا دئیے ہیں جو قرآن کریم کی گستاخیوں کے بعد اس وہم میں مبتلا تھے کہ
قرآن مٹ جائے گا یا لوگ قرآن سے دور ہو جائیں گے۔ امریکہ فرانس ڈنمارک اور ناروے سمیت دنیا کے تمام ممالک میں سید ابراہیم رئیسی کا قرآنی پیغام پہنچا جس سے قرآن کے دشمن ذلیل و رسوا ہوئے۔ اگرچہ اسرائیلی نمائندوں نے سید ابراہیم کی تقریر کے دوران احتجاج کیا لیکن کسی ملک نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ بڑے بڑے عرب ممالک خاموش تھے جنہوں نے اسلامی دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ لیکن ایک سید زادہ ببانگ دہل قرآن کو سینے سے لگا کر قرآن کو بوسہ دے کر اور قرآن کو ہاتھوں میں لہرا کا بتا رہا تھا کہ ہم ہی وارثِ قرآن ہیں اور ہم ہی محافظِ قرآن ہیں۔
رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ نے بارہ سے سترہ ربیع الاول ہفتہ وحدت کا اعلان فرمایا جسے جاری رکھتے ہوئے ولی امر مسلمین حضرت سید علی خامہ ای نے بھی عملی اقدامات فرمائے ہیں اسی تسلسل میں پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہہ قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے بھی ہفتہ وحدت کا اعلان کیا ہے۔ عالم اسلام اپنے پاکیزہ پیغمبر ؐ کا جشن ولادت بارہ ربیع الاول کو منائیں یا سترہ ربیع الاول کو۔ انہیں اپنی محافل کو وحدت کو اخوت کا مظہر بنانا چاہیے۔ اپنی محافل کو اتحاد و وحدت کا مرکز بنانا چاہیے۔ اپنی محافل کو قرآن کا محافظ بنانا چاہیے۔ اپنی محافل کو اہل بیت ؑ کے ذکر سے منور کرنا چاہیے۔ اس سے جہاں اللہ تعالے کی ذات راضی ہوگی وہاں ہم صاحب ِ میلاد ؐ کی خوشی اور شادمانی کا باعث بن سکیں گے۔ اور یہ طے ہے کہ نبی ؐ کی خوشی ہی سے ہمیں دنیا و آخرت میں سربلند و سرفراز رہ سکتے ہیں۔