• رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد
  • برسی شہدائے سیہون شریف کا چھٹا اجتماع ہزاروں افراد شریک
  • اعلامیہ اسلامی تحریک پاکستان برائے عام انتخابات 2024
  • ھیئت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کی جانب سے مجلس ترحیم
  • اسلامی تحریک پاکستان کے سیاسی سیل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا
  • مولانا امداد گھلو شیعہ علماء کونسل پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر منتخب

تازه خبریں

کربلا ایک کیفیت ‘ جذبے‘ تحریک اور ایک عزم کا نام ہے، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کا یوم عاشور پر پیغام

کربلا ایک کیفیت ‘ جذبے‘ تحریک اور ایک عزم کا نام ہے، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کا یوم عاشور پر پیغام

 کربلا ایک کیفیت ‘ جذبے‘ تحریک اور ایک عزم کا نام ہے، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کا یوم عاشور پر پیغام

حضرت امام حسین ؑ نے کر بلا میں پوری انسانیت کیلئے جو اصول و نقوش چھورٹے وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، قائد ملت جعفریہ پاکستان

اپنی انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل امام حسین علیہ السلام کے کر دار میں تلاش کرتے ہوئے اور رہنمائی پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کو پر سکون بناسکتے ہیں ۔

راولپنڈی /اسلام آباد 29اگست 2020ء( جعفریہ پریس پاکستان   ) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عاشورہ محرم 1445ھ کے موقع پر اپنے پیغام میں  کہا کہ کربلا ایک کیفیت ‘ جذبے‘ تحریک اور ایک عزم کا نام ہے۔ سید الشہد حضرت امام حسین علیہ السلام نے کر بلا میں پوری انسانیت کیلئے جو اصول اور نقوش چھوڑے وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ،اپنی انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل امام حسین علیہ السلام کے کر دار میں تلاش کرتے ہوئے اور رہنمائی پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کو پر سکون بناسکتے ہیں ۔علامہ ساجد نقوی کا مزید کہناتھاکہ محسن انسانیت‘ نواسہ پیغمبر اکرم سیدالشہدا ؑ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بزور مسلط کی جانیوالی حکمرانی کوماننے سے انکار کردیا، اسلامی اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی نفی پر مبنی جابرانہ نظام کو تسلیم نہ کیا، اوپرے کلچر اور تہذیب کو ٹھکرا دیا اور اصلاح امت ، معروف (نیکی) کو پھیلانے اورمنکر (برائی) کومٹانے کے لیے مدینہ سے ہجرت اختیار کی۔ یزید کا دور ایسا تھا کہ احکام اسلام کو کھلونا بناکر، اطاعت خداوندی کو ترک کرکے، شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا کر، قرآنی احکامات اور سنت رسول میں تحریف کرکے، اسلامی تعلیمات کومسخ کرکے، عدل اجتماعی کے تصور کا خاتمہ کرکے، بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے، معاشی و سماجی ناانصافی قائم کرکے، خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال میں بدل کر، سنتیں مٹاکربدعتیں زندہ کرکے اور قومی خزانے کو اپنے ذاتی اور مخصوص مفادات کے لیے استعمال کر کے دین الہی میں تبدیلی کی جارہی تھی شریعت محمدی کا حلیہ بگاڑا جا رہا تھا۔ علامہ ساجد نقوی نے کہاکہ واقعہ کربلا میں اس قدر ہدایت‘ رہنمائی اور جاذبیت ہے کہ وہ ہر دور کے ہر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔اس واقعہ کے پس منظر میں نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد‘ آفاقی اصول اور پختہ نظریات شامل ہیں۔ آپ نے واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز سے اظہار کیا اوردنیا کی ان غلط فہمیوں کو دور کیا کہ آپ کسی ذاتی اقتدار‘ جاہ و حشم کے حصول‘ ذاتی مفادات کے مدنظر یا کسی خاص شخصی مقصد کے تحت عازم سفر ہوئے ہیں اور موت جیسی اٹل حقیقت کے یقینی ہونے کے باوجود اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے ہر قسم کی مالی‘ دنیاوی ‘ حکومتی اور ذاتی پیشکش کو ٹھکرایا اور صرف قرآن و سنت‘ شریعت محمدی اورامر باالمعروف و نہی عن المنکر کے نظام کے نفاذ کو ترجیح دی۔ علامہ ساجد نقوی کا مزید کہناتھا کہ عاشورہ کی عملی شکل اس انداز سے اجاگر ہوئی کہ عاشورہ حریت کی ایک تعبیر بن گیا اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا۔روز عاشور سے قبل شب عاشور بھی اپنے اندر ایک الگ تاریخ کی حامل ہے جب امام عالی مقام نے عاشورا کے حقائق سے اپنے ساتھیوں ، جانثاروں اور بنو ہاشم کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ روز عاشور کیا ہوگا؟ اور اس میں کس کس کو کیا کیا قربانی دینا پڑے گی؟ آپ نے جب اپنے اصحاب و انصارکو عاشورا کی حقیقت یعنی اٹل موت سے باخبر کیا تو ساتھ ساتھ انہیں اپنے راستے کے انتخاب کی آزادی بھی فراہم کی اور کسی قسم کا حکم یا جبر اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اختیار دیا کہ وہ عاشورا کے راستے کا انتخاب کریں یا کربلا سے چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔ کھوکھلے دعوﺅں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔ آپؑ نے جبر کے ساتھ لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ نہ رکھ کر رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی چھوڑی کہ کشتیاں جلا کر لوگوں کو جبری شہادت کی طرف مجبور کرنا اور ہے جبکہ چراغ بجھا کر لوگوں کو ابدی نجات عطا کرنا اور ہے۔